تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ایک مسلمان کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ خلوص نیت کیساتھ اللہ ربّ العزت کے خالق کائنات اور وحدہ لاشریک ہونے کے اقرار کے ساتھ ، نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم النبین ہونے کا کامل یقین رکھتاہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے باب کو بند سمجھنا،اسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اوررحمت عالم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریبا ً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختم نبوت حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعوی کرئے، وہ کافر مرتد ، زندیق ، دائرہ اسلام سے خارج ، اور واجب القتل ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”نہیں ہیں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور اللہ تعالی ہر چیز کو جانتا ہے ”(سورة الاحزاب آیت نمبر40)۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک لے کر فرمایا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبین ہیں۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے ”میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ” (مسلم ) ایک اور حدیث مبارکہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہی لوگ اس عمارت کے اردگرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ( آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں ) اور میں خاتم النبین ہوں” (بخاری ، مسلم ، ترمذی )۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے تیس کذاب ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ” (ابو داؤد)۔ دشمنان اسلام کی جانب سے ہر دور میں مسلمانوں کو اسلام سے گمراہ کرنے کی کوششیں جاری رہی ہیں۔
دشمنوں کی ان سازشوں پر نگاہ رکھنے، اور ان کی مسلمانان اسلام کو راہ راست سے بھٹکانے کی گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر سال سات ستمبر کا دن یوم تحفظ ختم نبوت کے طورپر منایا جاتا ہے ۔ کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ملعون نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیاتو علماء ومشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ کیا ، اور سات ستمبر1974ء کے ہی مبارک دن پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے مشترکہ طورپر تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے اس فتنے کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی اور متفقہ طور پرقادیانیوں ،احمدیوں اورمرزائیوں کوغیرمسلم اقلیت قراردیا ۔ جبکہ تاریخی مقدمہ بہاول پورفتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل ثابت ہوا ، اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ،ریاست بہاول پور میں عبدالرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے اپنے باپ کے توسط سے24جولائی1926ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ نکاح کا دعویٰ کر دیا۔یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرض شرعی تحقیق منتقل ہواکہ آیا قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں یا نہیں؟اس طرح یہ مقدمہ دولوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا۔ اس مقدمہ میں دیگر علماء کے ساتھ مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اڑا دیے۔ عدالت میں موجود علماء حق کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے وکیل مولانا انور شاہ کاشمیری جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث سے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوار جھوم اٹھتے اور جب جلال میں آکرمرزائیت کو للکارتے تو کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔
ان کے پر اثر دلائل پر اہل دل گواہی دیتے تھے کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری نہیں،بلکہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔ لیکن جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظرآنا شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر1934ء میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے ، لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا جائے۔بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے مرزائیوں نے از خود عبدالرزاق کو قتل کروادیا تھا،تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے،مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔لہٰذایہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جناب محمد اکبر خان نے 7فروری1935ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیں،بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کاغلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا۔مرزائیوں نے جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔ اس تاریخ سا ز فیصلہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں پر مرزائیت کے عقائد کو آشکار کردیا اور اس طرح مرزائیوں کی ساکھ روزبروز کمزور ہونے لگی۔ اس مقدمہ کے حوالے سے علماء کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں ۔
اورپھرایک ایسا واقعہ رونماء ہوا جس نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ مئی1974ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان ( اب یونیورسٹی) کے طلبہ کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔نوجوان طلبہ اس سے مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ بادکے نعرے لگائے۔ 29مئی کو یہ طلبہ سیر و سیاحت کے بعد جب پشاور سے واپس ملتان آرہے تھے تو ربوہ پہنچتے ہی قادیانی دیسی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اورطلبہ کو نہایت بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا، انہیں لہولہان کردیااوران کا سامان لوٹ لیا۔ آناً فاناً یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہروں کاایک طوفان امڈپڑا۔ مجلس تحفظ ِختم نبوت کے اس وقت کے امیر مولانا سید محمدیوسف بنوری کی دعوت پر تمام طبقات نے لبیک کہا اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی جس کا امیر بھی مولانا یوسف بنوری کو بنایا گیا۔ 9جون1974ء کولاہور میں اس مجلس کا پہلااجلاس منعقد ہوا،جس میں قادیانیت کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔اس تحریک کا بس ایک ہی نعرہ تھا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔اس حوالے سے مجلس عمل کے قائدین نے پورے ملک کے طوفانی دورے کیے اور قادیانیت کے خلاف محاذ پر تمام مکاتب فکر کو متحدکیا۔ اخبارات،دینی جرائد اور طلبہ تنظیموں نے اس تحریک میں ایک جوش کی روح پھونک دی۔قادیانی اس تحریک سے بلبلا اٹھے اور مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لیے کئی جگہ دستی بموں سے حملے کیے۔
حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی اورتحریک ختم نبوت کے قائدین کی اکثریت تحفظ ناموس رسالت کے مطالبے کی پاداش میں جیل کی نذر ہوگئی ،مگر ان تمام معاملات نے تحریک کو ایک نئی جلا بخشی اور تحریک پھیلتی چلی گئی۔بالآخر حکومت نے قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے اپوزیشن کی طرف سے ایک بل پیش کیا(جس پر37معزز و محترم اراکین اسمبلی کے دستخط موجود تھے) اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی۔ اس طرح قومی اسمبلی میں مرزائیت پر بحث شروع ہوگئی۔یہ بحث دوماہ کے طویل عرصہ تک جاری رہی۔ان دو ماہ میں قومی اسمبلی کے28اجلاس اور68نشستیں منعقد ہوئیں۔ 5،6ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے دو روز تک اراکین قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا۔ بالآخر وہ مبارک گھڑی آئی جب 7ستمبر1974ء کو4 بج کر35 منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی اور لاہوری گروپ) کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیااور عبدالحفیظ پیر زادہ نے آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا۔ یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تو حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان فرطِ مسرت سے آپس میں بغل گیر ہو گئے۔یہ اعلان سننا تھا کہ لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے ، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں۔ پورے ملک میں اسلامیانِ پاکستان نے گھی کے چراغ جلائے۔
اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیا۔یہ یقینا بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں اسلامیان پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر ختم نبوت پر کسی کو ڈاکے ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔ 17 فروری 1983ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک مبلغ محمد اسلم قریشی کو مبینہ طور پر مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا تو یہ واقعہ ایک بار پھر بھرپور تحریک کا سبب بنا۔اس تحریک کے سبب صدر جنرل ضیاء الحق نے 26اپریل1984ء کو ”امتناع قادیانیت آرڈیننس” جاری کیا ،جس کے مطابق قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر، قادیانی کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، اذان دینا،اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام استعمال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ” تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ، قویٰ میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔” سات ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن ہے۔ اس دن ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم مسلمانوں کو گمراہ کرنے والوں کا محاسبہ کرتے رہیں گے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل:raraaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033