اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ مسلمان خاتون اپنے شوہر کی دوسری یا اس کے بعد مزید شادیوں پر اعتراض نہیں کرسکتی۔
منگل کے روز یہاں کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ایک عورت کا شوہر دوسری، تیسری یا چوتھی مرتبہ شادی کرے تو وہ طلاق کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام عورت کو اپنے شوہر سے علیحدگی کا حق دیتا ہے، لیکن دوسری شادی ایسا کرنے کے لیے معقول بنیاد نہیں ہوسکتی۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے مسلم طلاق ایکٹ 1939ء کے متعلقہ سیکشن پر بحث کی اور محسوس کیا کہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔ مولانا محمد شیرانی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اس حصے کو ختم کردے۔
ایک خاتون مختلف حالات کے تحت طلاق حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، اس ایکٹ کی شق (ایف) کے سیکشن 2 کا کہنا ہے کہ ’’اگر اس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، وہ قرآن پاک کے احکام کے مطابق ان کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں کرتا۔‘‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے بعد میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ایک عورت علیحدگی کے لیے درخواست دے سکتی ہے، اگر اس کے ساتھ غیر مساویانہ یا ظلم پر مبنی سلوک کیا جارہا ہے۔
بچوں کی شادیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نکاح صرف اس صورت میں جائز ہے، کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ لڑکی کے والد یا اس کے دادا کی جانب سے کروایا گیا ہو، نہ کہ ایک روایت کے طور پر، لیکن 18 برس کی عمر میں داخل ہونے سے پہلے اسلام میں رخصتی کی اجازت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک شخص کو سات برس کی قید کی سزا ہو گئی ہے تو اس کو علیحدگی کے لیے معقول وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ سزا اس مدت کے پورے ہونے سے قبل معاف بھی ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ اس سال 22 مئی کو اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ایک لڑکی اگر نوسال میں نوجوان ہوگئی ہے، اگر اس کے اندر بلوغت کی علامات نمایاں ہوگئی ہیں، تو وہ شادی کے قابل ہے۔
اس وقت مولانا شیرانی نے کہا تھا کہ قانون کے تحت شادی کی کم سے کم عمر کا جو تصور دیا گیا ہے، وہ 18 سال ہے، یہ اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ پانچ مہینے پہلے انہوں نے کہا تھا ’’اسلامی نکتہ نظر کے مطابق شادی کی عمر ایسی لڑکیوں کے لیے ، جن کے اندر بلوغت کی علامات نمایاں ہیں، 9 برس ہے۔ اور اسی طرح لڑکوں کے لیے 12 برس ہے، لیکن یہ دونوں 15 برس کی عمر میں شادی کے قابل ہوں گے۔‘‘
منگل کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اس سال میں چوتھی مرتبہ شادی کے قوانین پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس اجلاس میں مختلف قوانین کا بھی جائزہ لیا گیا، جن میں تحفظ پاکستان ایکٹ، قومی سلامتی پالیسی، فرقہ وارانہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے ضابطہ اخلاق اور نصاب میں جنسی تعلیم شامل ہیں۔
اس سال 10 مارچ کو کونسل نے پہلی بیوی کی موجودگی میں ایک شخص کی دوسری شادی کے سلسلے میں قوانین کو شریعت کے خلاف قرار دیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے اس اجلاس میں کہا تھا ’’شریعت ایک مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتی ہے، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متعلقہ قوانین میں ترمیم کرے، جن کے تحت ایک شخص کو دوسری یا مزید شادی کے لیے موجودہ بیوی یا بیویوں سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔‘‘
مولانا شیرانی جو جمیعت علمائے اسلام فضل کے رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، نے اس اجلاس کے بعد بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ شادی کے قوانین میں ترمیم کرے، اس لیے کہ شریعت میں واضح طور پر ایک شخص کی چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے، اور اس کو سمجھنا اور اس کی پیروی کرنا آسان ہے۔‘‘