دنیا کا سب سے گنجان ترین خطہ غزہ آٹھ سال سے ایسے محاصرے میں تھا کہ باقی عالم اسے دنیا کی سب سے بڑی آسمانی جیل کہنے پر مجبور ہو گیا۔آج اٹھارہ لاکھ انسان جن کا جرم صرف مسلمان ہونا ہے ،دن رات اسرائیل بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں لیکن ساری دنیا کے فیصلے کرنے والے صرف خاموش تماشائی ہیں۔وہ سب کہ جنہیں اگر دنیا میں کہیں کوئی یہودی یا عیسائی قتل ہوتا نظر آجائے تو وہ اس کے غم میں نڈھال ہو جاتے ہیں۔ ”میں مارے جانے والے تینوںاسرائیلی نوجوانوں کے اہل خانہ سے انتہائی سوگوارحالت میں دل کی گہرائیوں سے اظہارِ تعزیت کرتاہوں جن کے پاس اسرائیل اور امریکہ دونوں کی شہریت تھی۔
ایک باپ کے طورپر میں اس غم اوردکھ اور تکلیف کا تصورکرتے ہوئے بھی کانپ رہا ہوں جس کاسامنا ان 3 اسرائیلی نوجوانوں کے اہل خانہ کر رہے ہیں۔ دنیا میں جس قدر سخت ترین مذمت کے الفاظ اور انداز ہیں’ ان الفاظ میں امریکہ ان معصوم وبے گناہ نوجوانوں کے قتل کی’دہشت گردی کی مذمت کرتاہے۔ ان کے قاتلوں کوتلاش کرنا اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کی ذمہ داری ہے جنہیں مل کر یہ کام کرناہے اورمیں اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت اور دوستی کا یقین دلاتاہوں” یہ الفاظ امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے 30 جون کو اس وقت اپنی زبان سے خوداداکیے جب مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارہ سے ایک خبرملی کہ 12 جون 2014ء کو اچانک لاپتہ ہونے والے 3 اسرائیلی نوجوانوں جن میں 2 سولہ سالہ جبکہ ایک19سالہ تھا’کی لاشیں ملی ہیں۔
اسرائیل نے ان نوجوانوں کے قتل کا الزام براہ راست غزہ کی حکمران اور فلسطینی عوام کی ہردلعزیز تنظیم حماس کے اوپر لگا دیا اور پھر اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ پر بموں اور میزائلوں کی بارش کردی۔ لاشیں ملنے کے پہلے ہی روز اسرائیل نے غزہ پر 34 فضائی حملے کیے اور سینکڑوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں عورتیں اوربچے بھی شامل تھے۔پھراگلے ہی روز غزہ سے ایک 16 سالہ فلسطینی لڑکاابوخضیرلاپتہ ہوگیا۔ 3 دن بعد اس کی جلی اور مسخ شدہ لاش ملی توپتہ چلاکہ یہودیوں نے پکڑ کر اسے زندہ جلاکر شہید کیا ہے لیکن اس پر دنیامیں کہیں مذمت ہوئی نہ اس کی طرف کسی کادھیان گیا۔
اسرائیل نے اپنے لڑکوں کی تدفین کے فوری بعد غزہ پرمزید بڑے حملوں کااعلان کیا اورہرروز بمباری تیز کردی گئی جس کا نشانہ بن کر ہرروز سینکڑوں فلسطینی زخموں سے چور ہوئے۔ بچوں کے جسموں کے چیتھڑے بکھر جاتے۔مساجداور گھرملبے کاڈھیربن جاتے۔اس ملبے سے کتنے فلسطینی بچے ‘عورتیں اور نوجوان کنکریٹ توڑتوڑ کر زخموں سے چور چور کراہتے اور لہومیں ڈوبے اپنے پیاروں کو ملبے سے نکالتے تو ان پر دوبارہ بمباری شروع ہوجاتی اور یہ سلسلہاب بھی جاری و ساریہے۔
3 سال کے معصوم بچوں سے لے کر 80 سال تک کے ہزا رہ افلسطینی شہید وزخمی کردئیے جاتے ہیں لیکن دنیاصرف تماشائی ہے۔اس پرستم یہ کہ اقوام متحدہ ‘ یورپی یونین اور تمام عالمی طاقتیں یہ کہہ دیتی ہیں کہ” جنگ بندی کی جائے” کہ جیسے دوبرابر کی طاقتوں میں برابرکی جنگ ہورہی ہو۔
وہی برطانوی وزیراعظم جس نے اسرائیلی لڑکوں کے نامعلوم قتل پر ان الفاظ میں اظہارمذمت وافسوس کیا تھا کہ ”میں ان اغواء شدہ 3اسرائیلی لڑکوں کے قتل پر بہت اداس ہوا ہوں۔یہ دلدوزسانحہ ایساجرم ہے جس کی معافی ممکن نہیں۔برطانیہ اسرائیل کے ساتھ تھااورساتھ رہے گاتاکہ مجرموں کوسزا دی جاسکے۔ہماری ہمدردیاں تینوں لڑکوں کے والدین کے ساتھ ہیں۔دنیامیں آج تک کسی کے والدین کو اس قدر دلدوز غم اورتکلیف کبھی نہیں پہنچی ہو گی ”لیکن دنیا آج خاموش ہے جب مسلمانوں کے سینکڑوں بچے کٹ کٹ کر قبروں میں اتررہے ہیں۔ان کے سروں کے ٹکڑے اور اڑے بھیجے دنیادیکھ رہی ہے۔ مائیں چیخ چلا رہی ہیں۔باپ اپنے بچوں کے لاشوں سے چمٹے تڑپ رہے ہیں۔ان پرہرطرف خاموشی ہے’جیسے مسلمانوں کے بچے تو انسان ہی نہیں ہوتے۔ سارے مجرم انجام کوپہنچ رہے ہیں۔
3اسرائیلی لڑکوں کے نامعلوم قتل میں وہی اقوام متحدہ جو دنیابھرمیں دن رات مسلمانوں کے قتل میں سب سے زیادہ مجرم ہے تو ساتھ ہی خاموش تماشائی ہے’ کہہ اٹھی تھی کہ ”یہ امن کے خلاف سب سے بڑاجرم ہے” ان بے گناہوں کے قتل کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔”دنیائے عیسائیت کے مرکزویٹی کن سے پاپ فرانسسز کابیان آیا کہ یہ” اتنا بڑا دکھ ہے کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔”
Tony Blair
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہاکہ ”میں اسرائیل کے 3 لڑکوں کے قتل کی یہ خبرسن کر دہل کر رہ گیا ہوں ۔یہ انتہائی مجرمانہ اور بدمعاشا نہ فعل ہے۔ میری تمام تر ہمدردیاں تینوں اسرائیلی لڑکوں کے والدین کے ساتھ ہیں۔ اس حرکت کی کسی طریقے سے وکالت ممکن نہیں اور نہ ہی اس کے ذمہ داروں کو سزادینے پرکوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ ساری دنیاکو چاہئے کہ وہ اس عمل کی مذمت میں اکٹھی ہوجائے۔”
یہ لوگ 3اسرائیلی لڑکوں کے نامعلوم قتل پر جس قدر سوگوار ہوگئے ‘وہ تودنیانے دیکھ لیا لیکنانہیں دن رات بھوکے پیاسے ‘بموں سے ٹکڑے ہوتے فلسطینی عورتیں اور بچے نظرنہیں آتے اورنہ ہی اسرائیل کے ہاتھوں چنددنوں میں گرفتار ہوکر اسرائیل کی جیلوں میں پہنچنے والے ہزاروں فلسطینی نظرآرہے ہیں۔جنہیں ان کے معصوم بچوں کے ہاتھوں سے چھین چھین کر اسرائیلی فوج گاڑیوں میں ڈالتی اورہمیشہ کے لیے پس دیوارِ زنداں پھینک دیتی ہے۔
دنیابھر میں گنجان ترین آبادی رکھنے والا علاقہ ”غزہ”جس کی لمبائی محض 30کلومیٹر جبکہ چوڑائی 6 کلومیٹر ہے ۔ گزشتہ 8سال سے چاراطراف سے اسرائیل کے گھیرے میں ہے۔ اسرائیل نے 2000ء میں انتفاضہ اقصیٰ شروع ہونے کے بعدغزہ اورمغربی کنارے کے اطراف مضبوط کنکریٹ کی بلندوبالا دیوار یں تعمیر کی تھیں جن کے ساتھ کیمرے اور سنسرز اورکرنٹ لگایاگیا۔ڈرون کے ذریعے الگ سے جاسوسی ہوئی۔
غزہ کا محاصرہ سمندر کے راستے سے بھی 2007ء سے جاری ہے اوراگر دنیاکے ان محصورین کے لیے 2009ء میں ترکی کے ایک امدادی جہاز فریڈم فلوٹیلا کے ذریعے امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اسرائیل نے اسے سمندر کے بیچوں بیچ جا لیا اورترکی کے ڈیڑھ درجن کے قریب امدادی اہلکاروں کو اسرائیلی کمانڈوز نے ہیلی کاپٹروں سے اترکر گولیاں مار مارکرشہیدکردیا اور جہاز پرقبضہ جما لیا۔ 8سال ہونے کو آئے ‘دنیاکی سب سے بڑی کھلی جیل میں بسنے والے غزہ کے 18لاکھ فلسطینی مسلمان انتہائی محدود بجلی’پانی’گیس اور مادی وسائل پرتڑپ تڑپ کر زندگی کی سانسیں پوری کر رہے ہیں۔ان ”قیدی مسلمانوں” کو اسرائیل جب چاہتاہے’ خاک وخون میں تڑپادیتاہے۔بے شمارکو جیل میں ڈال دیتاہے لیکن یہاں باراک اوبامہ اندھاہے۔ برطانیہ لا تعلق ہے۔ اقوام متحدہ اورویٹی کن سمیت سبھی اس سے صرف محظوظ ہوتے ہیں۔
اسرائیل نے 2009ء میں بھی غزہ پرایساہی حملہ کیا تھا جس میں13سوسے زائد فلسطینی خاک وخون میں تڑپاکر قبروں میںاتارے اور غزہ کا بڑاعلاقہ کھنڈر بنایا تھا۔اس دوران مغربی جمہوری نظام کے ذریعے منتخب ہونے والی حماس کی حکومت کے اراکین اسمبلی اور وزراء کو بھی گرفتارکرکے جیل میں ڈال دیاتھا ۔ان میں سے کئی ایک آج تک جیل میں پڑے ہوئے ہیں لیکن یہاں نہ تو جمہوریت کی توہین ہوئی اورنہ کسی کو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ یہاں مسئلہ اسلام اور مسلمانوں کاہے۔
1987ء میں وجودمیں آنے والی فلسطینی تنظیم حماس بھی اسرائیل کے لیے روزِ اول سے لوہے کاچنا ثابت ہوئی ہے۔ اسرائیل نے اس تنظیم کے بانی اور اوّلین قائد شیخ احمد یاسین کو جوچلنے پھرنے سے قاصر تھے اور وہیل چیئر پر رہتے تھے’2مارچ 2004ء کو نمازِفجرکے بعد فضائی حملہ میں شہیدکیا۔ اس حملہ میں ان کے کئی محافظ اور کارکنان بھی ان کے ساتھ جام شہادت نوش کرگئے۔اس کے ایک ہی ماہ بعد اپریل2004ء میں اس تنظیم کے اگلے قائدڈاکٹرعبدالعزیزرنتیسی کو فضائی حملے میں شہید کیاگیا۔اسرائیل نے حماس کی اہم ترین قیادت اور اہم ساتھیوں اور کارکنان کو ہزاروں کی تعدادمیں چن چن کر غزہ’ مغربی کنارے اور بیرونی دنیامیں بھی شہیدکیا لیکن جذبۂ جہاد سے سرشاراور شوق شہادت سے لبریز حماس کو آج تک معمولی بھی جھکانے میں ناکام ہے۔
لیکن مسلم دنیاخواب غفلت سے جاگنے پر تیار نہیں۔ مسلمانوںکے دشمن حماس کو عالمی دہشت گرد قرار دے کرتنہاکرنے کے لیے ہروقت متحرک ہیں اور مسلم دنیا کے حکمران اپنے اپنے علاقے میں ”ہنوز دلی دوراست” کا سوچ کر میٹھی نیند سورہے ہیں کہ یقینا یہ بات صرف حماس اورسے آگے نہیں بڑھے گی حالانکہ اسرائیل نے تواپنی حدودکانقشہ بھی اپنی پارلیمنٹ میں لٹکا رکھاہے، اس میں مکہ اور مدینہ تک شامل ہے۔آخر مسلمان کب جاگیں گے…؟