پاکستان کے وزیراعظم کا توہین آمیز خاکوں کے خلاف سخت اور دو ٹوک موقف اپنانے پر ہالینڈ میں توہین آمیز خاکوں کے مقابلے منسوخ کر دیئے گئے۔ بلا شبہ یہ عالمی سطع پر ہماری سفارتی اور اخلاقی فتح ہے۔لیکن عالم اسلام کے خلاف سازشوں کا سلسلہ رکنے والا نہیں۔ ان کارٹون مقابلوں کا اعلان اسلام مخالف رہنما گیرٹ وائلڈر نے کر رکھا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے مسلمانوں کی اجتماعی ناکامی ہیں جب کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اس معاملے کو اٹھایا جائے گا۔سینیٹ اجلاس میں بھی ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرارداد مذمت منظور کرلی گئی، قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ نبی اکرم سے محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، مسلمان اپنے پیغمبر ۖکی شان میں گستاخی برداشت نہیں کریں گے، گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ ناقابل برداشت عمل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغرب میں لوگوں کو اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ نہیں جب کہ آزادی اظہار کے نام پر مغرب کا معاشرہ اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ مغربی معاشرے میں اس طرح کے کام کرنا آسان ہے۔او آئی سی کو بہت پہلے اس پر حکمت عملی بنانی چاہیے تھی وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم پہلے او آئی سی کو اس معاملے پر متفق کرنے کی کوشش کریں گے، ان چیزوں کا بار بار ہونا مسلم دنیا کی اجتماعی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کو بہت پہلے اس پر ایک حکمت عملی بنانی چاہیے تھی، مسلمان دنیا پہلے ایک ہو اور ایک چیز پر اکھٹی ہو، پھر اس مسئلے کو آگے اٹھایا جائے اور بتایا جائے کہ توہین رسالتۖ پر ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
ہالینڈ کی اسلام دشمن جماعت ”فریڈم پارٹی ”کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) نے نومبر 2018میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کیا تھا۔ گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) ایک ڈچ سیاستدان ہے اور اس کی شہرت اسلام پر تنقید کی وجہ سے ہے۔ نیدر لینڈ اور بیرون نیدرلینڈ میں اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے وہ متنازع بنا ہوا ہے۔ اس کی پارٹی نے نیدر لینڈ میں اسلام کے خلاف مہم چلاتے ہوئے قرآن کا مقابلہ ہٹلر کی لکھی ہوئی کتاب ”مائن کیمپف” (Mein Kampf) سے کیا۔ نیدر لینڈ میں قرآن کی اشاعت اور اس کی تلاوت پر پابندی عائد کرنے کی مہم چلائی۔ مساجد کو تالا لگانے اور نئی مساجد کی تعمیر کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اسی کے ایماء پر ڈچ حکومت نے حجاب، برقعہ اور نقاب پر پابندی لگائی۔
ولڈرز ایک لادین قسم کا انسان ہے۔ اس کے عقیدے کے مطابق خدا کا وجود محال ہے۔ اسلام کی مخالفت اور توہین کی وجہ سے ولڈرز مستقل طور پر سادہ لباس میں پولیس محافظین کے محاصرہ میں رہتا ہے اور کسی کو بھی بغیر مشورے، تحقیق اور حفاظت کے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ ریاست کی طرف سے دیے گئے ایک بلٹ پروف گھر میں رہتا ہے جس کی نگرانی میں ہمہ وقت پولیس تعینات رہتی ہے۔ وہ گھر سے پارلیمان اپنے دفتر تک سخت پولس محاصرہ میں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر جاتا ہے۔ اس کا دفتر ڈچ پارلیمان میں سب سے الگ ایک کونے میں بنا ہوا ہے تاکہ کوئی بھی حملہ آور اس تک نہ پہنچ سکے۔ ایک ہنگرین خاتون ڈپلومیٹ کرسٹینا ویلڈرس (Diplomat Christine Wilders)سے اس کی شادی ہوئی جس سے وہ سیکیورٹی کی وجہ سے ہفتہ میں صرف ایک بار ہی ملتا ہے۔
اسلام دشمن ڈچ سیاست دان گیرٹ ولڈرز نے اعلان کیا تھاکہ اس بار گستاخانہ خاکوں کا نمائشی مقابلہ سیکورٹی نکتہ نظر سے ڈچ پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر منعقد کیا جائے گا۔ اس میں ڈچ شہریوں سمیت فریڈم پارٹی کے اراکین کو شرکت کی دعوت دی گئی اور آن لائن گستاخانہ خاکے بھی طلب کیے گئے ۔ ڈچ میڈیا کے مطابق اس مقابلے کو سوشل میڈیا پر بھی براہِ راست دکھایا جانا تھا اور شرکا ء کیلئے بھاری انعامات دینے کا اعلان ہوا تھا۔ اس گستاخانہ مقابلے کے جج کے طور پر گیرٹ ولڈرز نے امریکہ سے تعلق رکھنے والے ملعون کارٹونسٹ بوش فاسٹن کے نام کا اعلان کیا ۔ یہ وہی جس نے 2015میں امریکن فریڈم ڈیفینس انیٹیٹیو (American Freedom Defense Initiative)کے تحت منعقدہ گستاخانہ مقابلے میں اوّل انعام حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے ملعون گیرٹ ولڈرز نے اس کو ڈچ پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والے مقابلہ کا منصف بنایا ہالینڈ میں رکن پارلیمنٹ اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے ایک بار پھر خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرمت رسولۖ پہ حملہ آور ہونے کی ناپاک جسارت کی ہے۔
اس نے ڈچ پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کروانے کا اعلان کیا جس کی اجازت ہالینڈ کے قومی سلامتی کے محکمے اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈچ کو آرڈینیٹر نے دے دی ہے۔ڈچ محکمہ انسداد دہشت گردی یا NCTDڈچ وزارت سلامتی اور انصاف کے زیر اہتمام ایک کونسل ہے جس کا سربراہ وزیر قانون و انصاف ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ محکمہ ہالینڈ میں شہری ہوا بازی کا ذمہ دار بھی ہے اور ملک میں دہشت گردی کے خطرے کی نگاہ داری بھی کرتا ہے۔ اس محکمے کے ہالینڈ کے ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی جذبات کو مجروح کرنے والے اس گھنائونے فعل کی اجازت دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہالینڈ کی حکومت اس قبیح فعل میں پوری طرح شریک ہے۔ ملعون گیرٹ ولڈرز کو پاکستان میں اس کے نام سے واقف زیادہ تر لوگ اس کی بنائی گئی متنازعہ فلم فتنہ کے ہدایت کار کے طور پہ ہی جانتے ہیں جبکہ اس کا اصل کیرئیر سیاست ہے۔اس نے اپنی جماعت پارٹی فار فریڈم 2006 ء میں بنائی اور اسی سال عام انتخابات میں اس نے اپنی مسلمانوں اور اسلام مخالف مہم کے بل بوتے پہ نو سیٹیں حاصل کرلیں اور پارلیمنٹ میں پانچویں بڑی پارٹی بن گئی۔اس کے چار سال بعد 2010 ء کے انتخابات میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور وہ چوبیس سیٹیں حاصل کرکے ہالینڈ کی تیسری بڑی جماعت بن گئی۔حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بیس سیٹوں کے ساتھ پارٹی فار فریڈم اب ہالینڈ کی دوسری بڑی جماعت سمجھی جاتی ہے۔
اس کی مقبولیت میں اضافے کا اہم ترین سبب اس کے سربراہ کا اسلام دشمن اور شاتم رسول ہونا ہے۔یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ گیرٹ ولڈرز نے اس لعین حرکت کا ارتکاب کیا ہو۔اس کا نعرہ ہے کہ میں مسلمانوں سے نہیں اسلام سے نفرت کرتا ہوں۔ایک بار اس نے مسلمانوں کو تنبیہہ کی کہ اگر وہ نیدرلینڈز میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ قرآن پاک نعوذ باللہ تلف کردیں۔اس نے بارہا نبی پاک اور قران کی شان اقدس میں بدترین گستاخیاں کیں۔فلم فتنہ تو دنیا بھر میں مسلمانوںکی دل آزاری کا سبب بنی اور اسی کی وجہ سے اس پہ فلم کی نمائش کے سلسلے میں برطانیہ میں داخلے پہ پابندی بھی لگی جو بعد میں اٹھا لی گئی۔اسی فلم کی وجہ سے آسٹریلوی عالم فیض محمد نے اس کے قتل کا فتوی جاری کیا اور القاعدہ نے اپنے مبینہ رسالے انسپائر میگزین میں اپنی جاری کی گئی ہٹ لسٹ میں اس کا نام بھی شامل کردیا۔اس لسٹ میں پہلے ہی ملعون سلمان رشدی اور فلیمنگ روز کا نام شامل تھا جو ڈنمارک کے بدنام زمانہ اخبار جیلانڈز پوسٹن کا ایڈیٹر تھا جس نے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے۔اسی فہرست میں بعد ازاں فرانسیسی اخبار شارلے ہیبدو کے صحافی اسٹیفن کارب کا نام بھی شامل ہوگیا جو شارلے ہیبدو پہ حملے میں مارا گیا۔گیرٹ ولڈرز چونکہ مارا نہیں گیا اس لئے اس نے ڈچ پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کردیا جبکہ ڈچ پارلیمنٹ کی اسپیکر خدیجہ عارب ایک مراکشی مسلمان ہیں۔۔ اس ملعون او ر اس جیسے دوسرے شاتمان رسول کو اچھی طرح علم ہے کہ ہر مسلمان کے لئے اس کے نبی کی محبت ہر شے سے بڑھ کر ہے اور اسی لئے وہ ایسی ناپاک جسارتیں کرتے رہتے اور حسب توفیق جہنم رسید ہوتے رہتے ہیں۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہالینڈ میں مراکشی مسلمانوں کی بڑی تعدادآباد ہے جو مختلف مواقع پہ ہجرت کر کے نیدرلینڈ میں مقیم ہوگئی۔ گیرٹ ولڈرز جو اپنی پارٹی بنانے سے پہلے نیدرلینڈز کے چوتھے بڑے شہر اوریخت کا مئیر بھی تھا، کی انتخابی مہم اسلام اور ان ہی مراکشی مسلمانوں کی دل آزاری پہ مشتمل ہوتی ہے۔ وہ یورپ میں بالعموم اور نیدرلینڈز میں بالخصوص مسلمانوں کی ہجرت اور معاشرت کے خلاف ہے۔ وہ اسے ٹرمپ کی طرح یورپی اور مغربی ثقافت کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔
گیرٹ ولڈرز کی اس ناپاک جسارت کو ہالینڈ کی دو وزاتیں پوری طرح سپورٹ کررہی ہیں۔ایک کا تعلق سیکوریٹی سے ہے جبکہ دوسری کا انسداد دہشت گردی سے۔ انہیں علم ہے کہ یہ گھناونی حرکت ملک کی سلامتی کو داو پہ لگا دے گی اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ متوقع ہے۔ چنانچہ انہیں علم ہے کہ مسلمانوں کو کس طرح مشتعل کیا جاسکتا ہے اور پھر ان پہ دہشت گردی کا لیبل لگایا جاسکتا ہے۔ ناموس رسالتۖ پر یہ رکیک اور مسلسل حملے اسی منصوبے کا ایک پہلو ہیں۔ایک طرف مسلمانوں کی زمینوں پہ قبضے کا عمل جاری ہے تو دوسری طرف ان کے جذبات اور ایمان کے سب سے حساس حصے پہ حملے جاری ہیں۔یہ انہیں ہر طرف سے بے بس کرنے کے نفسیاتی حربے ہیں جو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ تشکیل دیے گئے ہیں۔انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ناموس رسالت ایک مسلمان کے لئے کیا حیثیت رکھتی ہے۔
بدقسمتی سے مسلم رکن ممالک کا ایک دوسرے سے عدم تعاون اور آپسی اختلافات نے مسلم ملکوں کی او آئی سی تنظیم کو محض برائے نام احتجاجی فورم بنا ڈالا ہے۔ مصلحتوں کا لبادہ اوڑھے مسلم اْمہ کی قیادت آخر کب اپنے خمار سے جاگ کر ہوش کے ناخن لے گی؟ ڈچ وزیراعظم مارک رْٹے آزادی اظہارِ رائے کے قانون کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ خاکوں کے اس ناپاک مقابلے کو بے ادب اور اشتعال انگیز قرار دے دیا تھا۔
ہالینڈ میں ہونے والے گستاخانہ خاکوں کا چیف جج بوش فاسٹن بھی وہی امریکی کارٹونسٹ تھا جس نے اس سے قبل 2015 میں اسی طرح کے امریکی شہر گارلینڈ میں ہونے والے مقابلے میں اول انعام حاصل کیا تھا۔ یعنی یہ سوچی سمجھی سلسلہ وار سازش ہے جس کا مقصد امت محمدی کو اذیت پہنچانا ہے۔
وزیراعظم عمران خان تو اس معاملے میں او آئی سی اور اقوام متحدہ کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں اٹھانے کا کہ چکے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی جانب سے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا جا چکا تھا۔ لیکن اگر کچھ معاملات کو اٹھانے کے لیے او آئی سی اور اقوام متحدہ میں احتجاج ریکارڈ کرانا ہی کافی ہوتا تو فلسطین کب کا قابض صیہونی فوج سے آزاد ہوچکا تھا، کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہو تا؟۔ اگر پیغمبر خدا کے نام پر بھی ان اسلامی ممالک نے اپنے اختلافات ختم نہ کیے اور حرمت رسول کی اہمیت دنیا کو باور نہ کرائی تو بچا کچا عذاب بھی آنے میں دیر نہیں کرے گا۔
اس وقت ضروری ہے کہ پاکستان سمیت ہالینڈ کے سفارتخانوں کے باہر پرامن احتجاج کیا جائے۔ سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اقدام اٹھایا جائے۔ اور تو اور حکومتی سطح پر پاکستان سمیت دنیا کے تمام مسلم حکمران جن میں سعودی عرب، ترکی، ایران سرفہرست ہیں اعلان کریں کہ ہالینڈ سے ہر قسم کے مکمل سفارتی، تجارتی اور اخلاقی بائیکاٹ کرے ۔ واضح رہے کہ مارچ 2008 ء میں ڈنمارک کے اخبارات میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف عالم اسلام میں بھرپور احتجاج کیا گیا۔ اس کے باوجود ایک طے شدہ مذموم حکمت عملی کے تحت توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ ناروے، فرانس اور جرمنی کے اخبارات تک پھیل گیا۔
اس کا ردعمل ٹھیک 7برس بعد پیرس میں دیکھنے میں آیا اور جنوری 2015 ء کو پیرس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے مزاحیہ ہفت روزہ جریدے ”چارلی ایبڈو” کے دفتر میں نقاب پوش مسلح افراد کی فائرنگ سے میگزین کے چیف ایڈیٹر، 4کارٹونسٹ، 10صحافی اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 12افراد ہلاک اور 20زخمی ہو گئے تھے۔ حملہ آور کلاشنکوفوں اور راکٹ لانچروں سے مسلح تھے۔ جریدے کے دفتر پر حملہ اس وقت ہوا جب عملہ ہفتہ وار ادارتی میٹنگ کر رہا تھا۔ 2011ء میں بھی اس جریدے کے دفاتر پر آتش گیر مواد پھینکا گیا تھا۔ اْن دنوں بھی اس نے یہی گستاخانہ حرکت دہرائی تھی۔ یہ جریدہ مقدمات کے باوجود گستاخانہ حرکت جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس میگزین نے 2012ء میں بھی گستاخانہ خاکے چھاپے تھے۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے گستاخی کا بدلہ لے لیا ہے’۔ دوسری جانب ڈنمارک کے میڈیا گروپ جے پی پولیٹیکنز کے اخبار جیلنڈز پوسٹن کے حفاظتی انتظامات بھی سخت کردیئے گئے۔ اس اخبار نے بھی گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے۔ فرانس کے اس دور کے صدر نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت کرنے کے بجائے صدر فرانسو اولانند نے جائے وقوعہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عجیب بات کہی۔ اس کا کہنا تھا کہ ‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ غیرمعمولی طرز عمل ہے، ہمیں اس وجہ سے دھمکایا گیا ہے کیونکہ ہمارا ملک آزادی پسندوں کا ملک ہے’۔
یاد رہے کہ 2005ئ میں بھی فرانس میں نسلی منافرت پر مبنی فسادات کئی روز جاری رہے اور انتہا پسند مقامی آبادی نے مسلم تارکین وطن کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی سیکڑوں گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا۔ زیادہ تر حملے پیرس کے مضافات میں ان قصبوں میں کئے گئے جہاں مسلم تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے۔ فرانس یورپی یونین کا ایک اہم رکن ملک ہے اور یہاں کئی عشروں سے الجزائر، مراکش، تیونس، موریطانیہ اور کئی دیگر عرب ممالک کے تارکین وطن آباد ہیں۔ فرانس میں پارلیمنٹ کی جانب سے حجاب پر پابندی کے فیصلے کے خلاف عالم اسلام کے اکثر ممالک کے شہری صدائے احتجاج بلند کرتے رہے ہیں۔
مغرب میں مسلمانوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے ، صرف فرانس میں ان کی تعداد61 لاکھ 30ہزار ہے۔مغربی معاشروں میں تنگ نظری کی انتہا کا عالم یہ ہے کہ محض رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کے اختلاف کو جواز بنا کر مسلم شہریوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ نسل پرستی کے سب سے بڑے مخالف ہیں لیکن 9/11اور 7/7کے بعد حالات نے عالمی برادری کے سامنے تصویر کا انتہائی بھیانک رخ پیش کیا۔ ایک سابق جرمن سفارت کار مراد ہو فمین نے جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اپنے ایک مضمون میں اسلام مخالف مغربی ذہنیت کو یوں بے نقاب کیاکہ ‘اہل مغرب کو اسلام کے علاوہ ہر چیز گوارا ہے ،جب ان کا کسی مسلمان شخص کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو ان کی رواداری اور بے پایاں وسیع القلبی رخصت ہو جاتی ہے، غیر مسلموں کے وہی عادات و اطوار جو خوش دلی سے قبول کر لیے جاتے ہیں مسلمانوں کے لیے باعث ننگ و عار بن جاتے ہیں اور انہیں ‘ کٹر ،متعصب، غیر مہذب، غیر آئینی اور پسماندہ قرار دیا جاتا ہے’۔ مغربی ممالک نے آزادء اظہار کے نام پر ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کی دلآزاری کو اپنا شیوہ و شعار بنا لیا ہے۔