تحریر: شاہ بانو میر کبھی اے نوجوان مسلم تصور بھی کیا تو نے؟ وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اِک ٹوٹا ہوا تارا؟ لکھنے سے پہلے قرآن پاک کو کھولئے تحریر سے متعلقہ مواد ویسے ہی حاصل کیجیۓ جیسے علامہ اقبال کرتے تھے اور تحریر کو لازوال سچائی عطا کریں پھر آپکو علم ہوگا بطور مومن قلمکار کے کہ آپ سمیت کوئی چیز اتفاقیہ نہیں بنی آپکی تخلیق میں اللہ پاک نے اس کائنات کیلئے تلاش کا عنصر رکھا ہے جبھی تو آج کا انسان خلا کو تسخیر کرنے چلا ہے۔
یہی تخلیق آدم میں اللہ پاک کی حکمت عملی ہے مغربی افکار کی نمائیندگی کرنے کی بجائے زرخیز دماغ سے اسلامی تاریخ پر غور کریں اوراس پر لکھیں اور آخرت کیلئے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں پکڑنے کا مضبوط اہتمام کریں۔ رلاتی ہے مجھے جوانوں کی تن آسانی آئیے اقبال کے اس نوحے پر غور کرتے ہوئے جب بھی قلم اٹھائیں تو آسان راستہ نہ اپنائیں کسی کی تحریر کو لکھنے کی بجائے آپ بطور مسلمان دعا کریں قلم اٹھائیں اور قرآن سے مدد لیں کہ وہ مطلوبہ مضمون پر رہنمائی فرمائے اور وہ لکھوا دے جو حق ہے سچ ہے فائدہ مند ہے دنیا اور آخرت میں (آمین) آج ایک تحریر نظر سے گزری جسے محنت سے اردو میں تحریر کر کے خلق خُدا تک معلومات پہنچائی گئیں۔ مجھے بھی پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا مگر ایک مسلمان جس کا ایمان اللہ پر قرآن پر نبی پاکﷺ پر ہے۔
وہ حرف باحرف ویسے ہی لکھ رہے ہیں جیسے انہوں نے پڑھا ( حق یہی ہے ) مگر بطور مسلمان انہیں چاہیے تھا کہ کہیں بھی بریکٹ میں لکھ دیتے کہ مصنف یا تحقیق کار سے میں متفق نہیں ہوں جس بات نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا اس آ رٹیکل کا جملہ تھا””””” کہ بے شمار مفید ایجادات اتفاق سے ایجاد ہوگئیں ؟ “””””اللہ اکبر بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ تو وہ ہستی ہیں کہ ایک ایک پتہ ان کے علم میں ہے ۔ پھر یہ ایجادات اتفاق کیسے؟ یہ دنیا اس میں ہونے والی نئی نئی ایجادات اس عالمگیر منصوبے کا حصہ ہے جو لوح محفوظ میں لکھ کر رکھ دی گئیں۔ اتفاق سے ایجادات ہو رہی ہیں؟ ہرگز نہیں یہ بہترین کارساز کا عمل ہے جس میں اللہ سبحان و تعالیٰ کسی بھی جگہہ پر کسی انسان کوپہنچا کر وہ کام کروا لیتے ہیں جسے کوئی نادان اپنی ذاتی کوشش یا اتفاق سمجھ لیتا ہے یہ تاثر سوفیصد غلط ہے کہ ایجادات تخلیقات انسان سے اتفاقیہ ہو جاتی ہیں۔
Quran
یہ سوچ ایک غیر مسلم ذہن کی ہو سکتی ہے جن کا سازو سامان جینا مرنا سب کچھ اسی دنیا تک محدود ہےاسی لئے رب کائنات نے انہیں علم بھی عطا کیا جو دنیا کے لئے بے بہا ہے مگر وہ علم جو وہ شعور جو اللہ پاک قرآن پڑھ کر لا محدود ایک مومن کو عطا کرتا ہے وہ اس جملے کو یکسر مسترد کرے گا کیونکہ وہ قرآن پاک سے اس سے کہیں زیادہ علم حاصل کرتا ہے جو آگہی دیتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے کب کس سے کیا کام لے لے؟ وہ اللہ جو پتھر کے اندر چھپے ہوئے سبز پتے کو جو کسی کیڑے کے منہ میں ہو انسان کو دکھا کر اللہ پاک اپنی قدرت آشکارہ کرتے ہیںابابیلوں کو بھیج کر اپنے گھر کی حفاظت فرماتے ہیں
بھڑکتی آسمان سے باتیں کرتی آگ کو ابرہیم کے داخل ہوتے ہی گل و گلزار بنا دیتے ہیں کیا اتفاق سے کائنات بن گئی؟ اتفاق سے انسان جیسی پیچیدہ مشینری کی بنیاد رکھنے والا وجود وضع حمل کی مقررہ مدت پوری کر کےاتفاق سے دنیا میں آگیا؟ یا اللہ سبحان و تعالیٰ کا مطلوبہ وقت اسے لایا؟ اتفاق سے اسی انسان کا دماغ بن گیا ؟ اتفاق سے اس میں عقل سلیم رکھ دی گئی ؟ اتفاق سے اس انسان کو جانوروں سے ممیز رکھنے کیلئے اسے لباس پہننے کیلئے طویل طریقہ کار کا پتہ چلا؟ کیا اتفاق سے اسے پہلے بیج ملا؟ پھر اسے کواتفاق سے بو دیا انسان نے؟ پھر پودے نکلا اس سے نرم روئی ملی اور پھر اتفاق سے کپڑا بنانے کا طریقہ پتہ چلا؟ جو انسان کا ممتاز کرتا ہے۔ اتفاق سے حضرت داؤد کو اِک تارہ بنا دیا گیا۔
پھر خوش الحان حمد و ثنا ایسی اتفاق سے ملی کہ شجر و ہجر جھوم جاتے پہاڑ لہراتے؟ اتفاق سے حضرت ادریس کو کپڑے سینے کا شعور ملا؟ اتفاق سے حضرت نوح نے کشتی بنا لی؟ اتفاق سے خوفناک طوفان آیا اور اتفاق سے دنیا کو دوبارہ آباد کرنے کیلئے از خود جانور انسان چرند پرند اس کشتی میں بیٹھ گئے ؟ اتفاق سے ایک در یتیمﷺ بغیر ساز و سامان کے صادق و امین بنایا جاتا ہے اتفاق سے اعلان حق کرتے ہیں؟ بے پناہ مصائب برداشت کرتے ہیں اور بلاخر دنیا میں انقلابی نظام حق کے ساتھ ابھرتا ہے میری دردمندانہ درخواست ہے تمام اہل قلم سے ہم اپنے تئیں بہت محنت کرتے ہیں سنجیدہ ہیں باشعور ہیں فائدہ مند ہیں ۔ٌ مگر ہم نے قرآن پاک کا ترجمہ تو پڑھا ہی نہیں کہ جس میں ایک مکمل دنیا کا ذکر ہے ایک یہ عارضی جھوٹی تھوڑے سے فائدے کی دنیا جو دراصل ہماری میراث نہیں ہم تو جنت کے وارث ہیں۔
Day of Judgement
اس انسان کی بنیاد حضرت آدم کو اتفاقیہ نہیں باقاعدہ منصوبے کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔ ابلیس کا شیطان بننا بعد میں اماں حوا کی تشکیل یعنی دنیا کے جزویات مکمل ہو گئیں۔ خیر و شر کا توازن رکھنے کیلئے ایجادات اور اس دنیا کی ترقی اتفاقات پر نہیں وجود کائنات سے پہلے تحریر ہے یہ ہم کم عقل ہیں جو “”بگ بینگ تھیوری”” کو اتفاقیہ حادثے کا نام دے کر قیامت کی تباہی کو بھی اتفاقیہ دھماکے سے ختم ہوگی کہتے ہیں۔
بطور مسلمان اللہ سبحان و تعالیٰ نے ہمارا کردار لکھ کر محفوظ کر دیا ہے فکر ہمیں کرنی ہے کہ ہمارے اعمال کس سے مماثلت رکھتے ہیں انجام بہترین ہونا آپ کے اعمال کی قبولیت کی دلیل ہے اس کیلیۓ علم قرآن کا حصول بنیادی ضرورت ہے اس سے استفادہ حاصل کریں 1 مومنین جن پر اللہ کے علوم اللہ کا عرفان وا کیا گیا اللہ کے پیارے پسندیدہ بندے جو ہر لمحہ اس کی خوشنودی اسکی خشیعت پر غورکر کے زندگی کوگزارتے ہیں ۔ یہی مفلحون میں سے ہیں جنت کے وارث منافقین جو دنیا میں اور دین میں یکساں دکھائی دیتے ہیں اور ہماری اکثریت آج دین اور دنیا کا توازن کرتی دکھائی دیتی ہے ایسے لوگوں کیلئے فرمایا کہ ہم نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے یعنی راستہ صرف ایک ہے صراط المستقیم کا جو پُل صراط تک جاتا ہے۔
تیسرے فاسقین جو کھلم کھلا اعلان بغاوت کرتے ہیں اللہ کے ہر حکم کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات کو طاقت کا منبع ظاہر کرتے ہیں ہر ایجاد کو ہر کامیابی کو ہر فتح کو اپنے دماغ کی کاوش اور اپنی جسمانی طاقت کا مظہر بتاتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں پر پردہ ہے اور آپﷺ کو کہ دیا گیا البقرہ میں آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ان کے لئے برابر ہے یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے ہر عمل کا رد عمل ہے ہر محنت کا صلہ ہے انعام ہے تو پھر ایک نعمتوں سے پُر زندگی گزار کر ہم واپس بغیر کسی حساب کتاب کے چلے جائیں گے؟ نہیں عارضی دنیا یہ ہے اور ہمیشگی کی دنیا وہ ہے یہ سب نظام اتفاق سے نہیں طے شدہ منصوبے سے عمل میں آیا ہے۔
جنت اور جہنم خوش فہمی یا ڈراوہ نہیں مسلمہ حقیقت ہے اس سرائے (دنیا) سے آگے جا کرہر صورت ہر عمل کا جواب دینا ہے اپنے اسلاف کو پڑہیں رہنمائی لیں اور اقبال کو جواب دیں وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اِک ٹوٹا ہوا تارا