International Islamic University Islamabad Seminar
اسلام آباد (رپورٹ عبدالرحمن معاویہ) مسلم نوجوان کو چاہیے کہ وہ تمام اقسام کے سیاسی و مذہبی اور قومی و لسانی اور فروعی و جزوی اختلافات سے بالاتر ہوکردین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ساری ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کے لیے اپنا حقیقی کردار اداکریں ۔دین اسلام معاشرہ میں کسی بھی طرح کی تقسیم و دوئی اور ثانویت کو پسند نہیں کرتا۔
اسلام خاندان میں ،معاشرہ میں وحد ت و یگانگت کے قیام پر اصرار کرتاہے اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور وہ ایک جسم کی مانند ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی تکلیف و اذیت پہنچے تو دوسرے مسلمان اپنے بھائی کی مدد کرنے کو بے تاب ہوجاتے ہیں۔آج کے زمانے میں لازم ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ان پر عائد ذمہ داریوں سے ان کو واقف کرایا جائے کہ وہ بحیثیت طالب علم ،بحیثیت بیٹا ،اور بحیثیت معاشرہ کے ایک فرد ہونے کے سبب اس کو یہ ذمہ داریاں کیسے انجام دینی چاہیں۔
اسی سلسلہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں جامعہ ازھر کے اساتذہ کی جانب سے ایک سیمینار ”مسلم نوجوان کی ذمہ داریاں”کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں نوجوان کی خاندان میں ذمہ داری،سماج میں اس کے فرائض اور مسلم امہ کے مسائل سے روشناسی حاصل کرکے ان سے ملت اسلامیہ کو نکالنے میں کیا کردار اداکرسکتاہے جیسے ذیلی عنوانات پر لیکچر دئیے گئے۔
سیمینار چئیرمین بعثة الازھریہ ڈاکٹر خالد فوا د الازہری کی زیر سرپرستی منعقد ہوا۔سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحمید سیف النصر نے نوجوان کی خاندان میں ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ نوجوان کی خاندان میں دو طرح کے مراحل سے گزرتاہے ایک شادی شدہ ہونے اور دوسرا غیرشادی شدہ ہونے کی حیثیت دونوں صورتوں میں نوجوان پر خاندان کو مستحکم و مضبوط بنانے کے لیے اپنے فرائض اداکرنا ضروری ہوتے ہیں۔
والدین کی خدمت ،ان کی فرمابرداری،بہن بھائیوں سے محبت و حسن سلوک و روداری کو ملحوظ رکھنا اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں بیوی کا نان نفقہ کا ذمہ ،اولاد کی دینی و فکری تربیت جیسی ذمہ داریاں اداکرنا نوجوان کے فرائض میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر عمر الحمزاوی نے نوجوانوں کے معاشرتی کردار کو واضح کرنے کے لیے اسلامی تاریخ سے متعدد مثالیں پیش کیں کہ وہ بحیثیت قائد و حاکم کیسے تھے ،انہوں نے اسلامی دعوت کو کرہ ارضی پر پھیلانے میں کیسے کیسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔
جیسے عبدالرحمن الداخل نے کم عمری میں اندلس میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی جو آٹھ سوسال تک قائم رہی،محمد ابن قاسم نے اسلام کی دعوت برصغیر میں پہنچائی اور انہوں نے ملتان تک کے علاقوں کو ہندوئوں کے قبضوں سے چھوڑاکراسلامی خلافت میں شامل کرایاجب وہ ہندوستان سے واپس جارہے تھے تو خود غیر مسلم اس کے عدل و انصاف کے اعتراف کرتے ہوئے غم و الم کی حالت میں رخصت کیا۔محمد الفاتح نے یورپ کے متعدد ملکوں کو فتح کرکے اس میں اسلام کا علم بلند کیا اور خلافت عثمانیہ کو مضبوط دارالحکومت استنبول عطاکیا
جبکہ اس وقت مغرب تاریکیوں میں ڈوباہواتھا اور اس تک علم کی روشنی مسلمانوں کے صدقے سے پہنچی جس سے اب وہ انکاری ہیں۔علم کے میدان میں امام بخاری و امام شافعی جیسے نام قابل ذکر ہیں کے جنہوں نے اول الذکر کو ایک لاکھ احادیث نبویۖ حفظ تھیںجس میں سے صرف سات ہزار صحیح احادیث کو جمع کرکے” بخاری شریف ” مدون کی جس کے ثقہ ہونے کا درجہ قرآن پاک کے بعد مسلم ہے،آخر الذکر نے حدیث کی مشہور کتاب”موطا امام مالک” دس سال کی عمر میں یادکرلی اور بارہ سال کی عمر میں مسند فتویٰ پر فائض ہوئے۔نبی کریم ۖ نے دس مقتدر صحابہ کو دنیا میں جنتی ہونے کی بشارت دی جس میں چار نوجوان علی ابن ابی طالب جنہوں نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا،زبیر العوام جن کے چچاانہیں آگ کے دھویں میں ڈال کر مطالبہ کیا کہ اسلام کو ترک کردیں مگر انہوں نے انکار کردیا۔
سعید ابن زیدانہیں کے سبب حضرت عمر اسلام کے دامن سے وابستہ ہوئے اور طلحہ بن عبیداللہ غزوہ احد میںنبی کریمۖ کی حفاظت میں ستر سے زائد زخم اپنے جسم پر برداشت کیے مگر آپۖ کے جسم اقدس پر آنچ نہ آنے دی۔ڈاکٹر حسن عبدالباقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم انبیاء سے ملی ہوئی میراث کو آئندہ نسل تک مکمل دیانت داری کے ساتھ منتقل کی جائے۔نوجوان نسل کو چاہیے شریعت اسلام کی شمع جے نیچے اپنی زندگی بسر کریں اور دین اسلام کے تمام مبادی و قیم اور تعلیمات کی دل و جان سے ناصرف حفاظت کریں بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔
اسلام نے انسانیت کو تمام امور معاشرت کی ہدایت دی ہے مگر اس میں بعض مبتدعین نے ملاوٹ و غلط بیانی کی ،ان شکوک شبہات کو سمجھنا اور ان کا مقابلہ کرنا نسل نو کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔نوجوان نسل اپنے آپ کو تعلیم و تحقیق کے میدان میں مضبوط و مستحکم کریں اور سماج میں ہمہ جہت فتنوں اور فرقوں میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے ایک صالح اور مخلص اور اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا اساسی کردار اداکریں۔سیمینار کے آخرمیں سوالات و تجاویز کا وقت مختص کیا گیا تھا جس میں حصہ لینے والے طلبہ میں بطور انعام اسلامی و فکری کتب کی تقسیم کی گئیں۔