فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر مسلمانوں کو دھچکا لگا ہے لیکن دھچکے کی یہ کیفیت کسی بھی طرح کے تشدد کی دلیل کے طور پر قابل قبول نہیں ہو گی۔
صدر ماکروں نے یہ بات عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ اپنے اس تفصیلی انٹرویو میں کہی، جو عالمی وقت کے مطابق ہفتہ اکتیس اکتوبر کی شام نشر کیا گیا۔ ایمانوئل ماکروں نے کہا، ” میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ (پیغمبر اسلام کے) خاکوں کی اشاعت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی، تاہم میں یہ بات کبھی بھی قبول نہیں کروں گا کہ تشدد اپنی کسی بھی حالت میں جائز اور قابل قبول ہے۔‘‘
فرانسیسی صدر نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو یہ انٹرویو فرانس کے شہر نیس میں ایک مسلمان کی طرف سے چاقو سے کیے جانے والے اس حالیہ حملے کے پس منظر میں دیا، جس میں حملہ آور کے ہاتھوں تین افراد مارے گئے تھے۔
اس بارے میں فرانس میں جریدے شارلی ایبدو کی طرف سے حال ہی میں ایک بار پھر پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت اور پھر ایک فرانسیسی ٹیچر کی طرف سے اپنی کلاس میں ایسا ایک خاکہ دکھائے جانے کے بعد ایک مسلمان نوجوان کی طرف سے اس ٹیچر کا سر قلم کر دیے جانے کے واقعات کے بعد خود صدر ماکروں نے آزادی اظہار رائے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک واضح بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فرانس اپنی سماجی اور ثقافتی اقدار اور آزادی رائے کی روایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
صدر ماکروں کے اس بیان کے بعد کئی مسلم ممالک میں فرانس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور ترک صدر ایردوآن نے نہ صرف صدر ماکروں کو ‘ذہنی مریض‘ قرار دے دیا تھا بلکہ انہوں نے ترک عوام سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل بھی کر دی تھی۔ اس پس منظر میں الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں صدر ماکروں نے کہا، ”میرے خیال میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آزادیوں اور اپنے حقوق کا دفاع کریں۔‘‘
اس انٹرویو میں صدر ماکروں نے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کے بعد بظاہر فرانس اور مسلم دنیا کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسا ہر دعویٰ اور بیان محض ایک ‘جھوٹ‘ ہے کہ ان خاکوں کی اشاعت کے پیچھے فرانسیسی ریاست ہے۔
ایمانوئل ماکروں نے کئی مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ان اپیلوں کی بھی مذمت کی، جو ایک سربراہ مملکت کے طور پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن سمیت کئی مسلم اکثریتی ممالک کے سرکردہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے فرانس کے خلاف غم و غصے کی وجہ سے جاری کی گئی تھیں۔