تحریر: عابد رحمت بیرون ملک ایک مسلمان نے غیرمسلموں کے ہاں گھر کرایہ پرلے رکھا تھا، اوپروالے پورشن میں وہ مسلمان رہتا اور نیچے والی منزل میں مالکان رہتے ۔ کھلاماحول ہونے کی وجہ سے مالکان کا مسلمان کے کمرے میں آنا جانا لگا رہتا ۔مالکان کواس مسلمان کی ایک عادت بڑی عجیب لگتی ، وہ جب بھی اس کے کمرے میں جاتے تودیکھتے کہ اس کاکمرہ انتہائی سلیقے سے سجاہوتا، کہیں بھی بے ترتیبی نہ ہوتی ، واش روم تو ہروقت صاف ستھرارہتاہے ۔ایک دن سب گھروالوں نے تہیہ کرلیاکہ وہ آج اس مسلمان سے اس کی وجہ معلوم کریں گے۔ شام کوجب وہ مسلمان گھرلوٹاتو سب گھروالوں نے اسے گھیر لیااورپوچھنے لگے کہ تم اس قدرنفاست اورصفائی پسندکیوںہو؟ تمہاراباتھ روم تک شیشے کی طرح چمک رہاہوتاہے ۔ یہ سن کروہ مسلمان کہنے لگا، اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ،یہ تومیرے آقا ۖ کافرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے ،ہمارے اسلام میں صفائی اورطہارت کی بڑی تاکیدکی گئی ہے ، میری کوشش ہوتی ہے کہ ہروقت صفائی رکھوں ۔یہ سن کروہ بڑے حیران ہوئے کہ جس نبی کاایک ادنیٰ ساامتی اس قدرنفاست پسندہو، وہ نبی کس قدرجلیل القدراورصفائی پسندہوگا، تمام گھروالے صرف اسی وجہ سے مسلمان ہوگئے کہ اسلام انسانوں کوصاف ستھرارہنے کی تلقین کرتاہے اور اسلام میں کس قدراعلیٰ تعلیمات ہیں ۔
دوسراواقعہ بھی اسی قسم کاہے ، ایک مسلمان غیرمسلم کاپڑوسی تھا، غیرمسلم کے ہاں روزانہ اخبارآتاتھا، اخباروالے کی عادت تھی کہ وہ اخبارگھرمیں پھینکنے کی بجائے باہرلان میں پھینک دیتا۔ ایک دن وہ غیرمسلم دوماہ کے لئے کہیںچلاگیا۔ مسلمان دوسرے دن اپنے پڑوسی کے ہاں گیااوراس کے لان سے تازہ اخباراٹھالایااوراسے بڑی نفاست اورترتیب سے ایک جگہ رکھ دیا، وہ دوماہ اسی طرح کرتارہا، وہ صبح صبح پڑوسی کے لان میں جاتا اوراخباراٹھالاتا،و ہ اسی ترتیب سے اخبارات جمع کرتارہا۔دوماہ بعدجب اس کاپڑوسی لوٹاتو مسلمان اس کی خیریت دریافت کرنے گیاتو اخباربھی ساتھ لے آیا، پڑوسی یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ دوماہ کے اخباروں کابنڈل بڑی ترتیب سے سجاہواہے ۔
اس نے مسلمان سے سوال کیاکہ تم میرے اخبارات نہیں پڑھتے رہے ؟ مسلمان کاجواب نفی میں پاکراس نے استفسارکیاکہ تم نے ایساکیوں کیا؟مسلمان کہنے لگاکہ یہ ہمارے پیارے رسول ۖ کاحکم ہے کہ ہم اپنے پڑوسی کی ہرچیزکی حفاظت کریں ، ہرطرح سے اپنے پڑوسی کاخیال رکھیں ۔آپ کے اخبارات اگرباہرپڑے رہتے توخرات ہوجاتے اورکسی بھی کام کے نہ رہتے ،اس لئے میں اخبارات لے آتا۔غیرمسلم کہنے لگا کیاغیرمسلم پڑوسیوں کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ ان کاخیال کیاجائے ؟مسلمان نے جواب دیاکہ ہاں ہمارااسلام مسلم وغیرمسلم کی تخصیص کیے بغیرہمیں اپنے پڑوسی کاخیال رکھنے کاحکم دیتاہے ۔ اب رہامعاملہ اخبارنہ پڑھنے کاتوآپ نے مجھے اخبارپڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی ، اس لئے میں نے کبھی اخبارکھول کربھی نہیں دیکھا۔وہ غیرمسلم مسلمان کے اس رویے اورکردارسے اس قدرمتاثرہواکہ فوراًاسلام قبول کرلیا۔
یہ محض واقعات نہیں ،ایک آئینہ ہیں جوہمیں ہماری موجوہ صورتحال دکھارہے ہیں ۔ہماری آج کی مسلمانی سے کوئی غیرمسلم توکیامسلمان ہوگا،ہم خود اپنے ہی مسلمان بھائیوں کواسلام سے دورکرنے کاسبب بن رہے ہیں۔ہمارے کردارکی یہ حالت ہے کہ ہم اس نبی ۖ کے نام پرمسلمانوں کولوٹتے ہیں ، بے گناہ مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں ،آپس میں ہی دست وگریباں ہیں،پڑوسی ‘پڑوسی سے تنگ ہے، ہم لوگوں کودھوکہ دے رہے ہیں ،بے دریغ ہرچیزمیں ملاوٹ کررہے ہیں ، ماپ تول میں کمی توجیسے ہماری گھٹی میں رکھ دی گئی ہو، ایسامعلوم ہوتاہے جیسے جھوٹ بولنے میں ہم ساری اقوام سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہوں ۔سودخوری ، زناکاری، رشوت ستانی کابازارگرم ہے ، فتنہ وفساد،چوری ، ڈاکہ زنی ہمارے معاشرے کاناسوربن چکے ہیں ،بات بات پہ گالی دیناہماراوطیربن چکاہیے، آج کامسلمان دوسرے مسلمانوں کواذیت دے کرراحت وسکون محسوس کرتاہے ، ایک دوسرے پرالزامات ، تہمتیں اورعیب لگاناایک عام آدمی سے لے کرحکمرانوں تک میں رواج پاچکاہے ۔
اب بتائیے جب پیارے نبی ۖ کے نام پرسڑکوں اورچوراہوں کوبندکردیاجائے کہ راستہ نہ ملنے پر ایمبولینس میں ،ایک معصوم جان اپنی جان گنوابیٹھے،جب مسافرگندے نالوں کوعبورکرکے متبادل رستہ اختیارکرنے پرمجبورہوں توپھر ایسا کرداردیکھ کرمسلمان ہی مسلمانوں سے دورنہیں ہونگے توپھرکیانتیجہ نکلے گا؟جب نبی ۖ کی ولادت کی خوشی میں سڑکوں پرجلوس نکالے جائیں اورلوگوں کوگزرنے میں تنگی ہوتوپھربتائیے پیارے نبی ۖ کاوہ فرمان کہاں جائے گاکہ جس میں آپ ۖ نے لوگوں کویہ حکم سنایاکہ مسلمانوں کوان کے راستے میں رکاوٹ بن کراذیت نہ دو، راستوں میں نہ بیٹھو،راستوں کے حقوق اداکرو،مسلمانوں کوان کے راستے میں اذیت دینے والااللہ کے ہاں براانسان ہے ۔
جب ہم راستوں میں دھرنے دیں گے ، بے ہنگم پارکنگ کریں گے ، ہرغمی خوشی راستوں کوبندکرکے منائیں گے ، جب ہم اپنی دکانیں رستوں میں سجالیں گے ،تجاوزات کی بھرمارکریںگے، جب ہم کوڑاکرکٹ راہ میں پھینکیں گے ، جب ہم ہروہ کام کریں گے جس سے پیارے رسول ۖ نے ہمیں منع کیاہے توپھرہم کس منہ سے کسی غیرمسلم کویہ کہیں گے کہ ہم اس نبی ۖ کے امتی ہیں جوتمام جہانوں کے لئے رحمت بن کرآئے؟ہم چیخ چیخ کربھی انہیں مسلمان ہونے کی دعوت دیں تب بھی وہ اسلام کی طرف نہ دیکھیں گے ۔مسلمانوں کی یہ روش دیکھ کرمیں سوچتاہوں کہ ہم کیسے امتی ہیں ؟پتانہیں یہ میں ہی سوچتا ہوں یاہروہ مسلمان سوچنے پرمجبورہے جواس پیارے نبی ۖ کاامتی ہونے پرفخرکرتاہے جونبی ۖدوسروں کوتکلیف دینے سے منع کرتے ہیں۔