تحریر۔۔۔ شفقت اللہ خاں سیال آج ہر انسان کے ذہن اس طرح کے ہوکر رہے گئے ہے۔کہ ان کے ذہن میں یہی ہے ۔کہ میرے سے زیادہ کوئی عقل مند انسان نہیں ۔جبکہ ہرانسان میں اگر کوئی برائی ہے ۔تو اس میں کچھ نہ کچھ تو ضرور اچھائی بھی ہوتی ہے ۔جو کہ ہم کو نظر نہیں آتی۔آج اگر کسی ساتھ جتنا مرضی اچھا کرلوں اور اس کا ایک کام نہ کیا تو وہ تمھارا مخلف ہو جائے ۔وہ احسان فراموش یہ بھی بھول جائے گا۔کہ اس انسان سے اگر ایک کام نہیں ہوسکا۔توکیا ہوا اس انسان کے تم پر پہلے بھی کتنے احسان ہے۔مگر نہیںیہ آج کے اکثریت لوگوں کے ذہن ایسے ہی ہوچکے ہیں۔آج بھی وڈیرہ شاہی ہم لوگوں پر راج کر رہی ہے۔کسی سید ۔سیال ۔مہر ۔نواب وغیرہ کی صورت میں ۔بزرگ بات کرتے تھے۔
کہ پہلے اپنے محلہ کو درست کر اگر وہ ٹھیک ہوجائے۔تو اپنے شہر کے مسائل حل کرو۔وہ بھی ٹھیک ہوجائے تو آگے کی سوچوں مگر یہاں تو ہمارے قلم کار بھائی جب قلم اٹھاتے ہے ۔وہ تو یہ بھی بھول جاتے ہے۔کہ اس کی گلی محلہ کے مسائل کیا کیا ہے۔خیر میں پچھلے کالم میں ذکر کررہاتھا۔آج کے اس دور میں ہم صرف نام کے مسلمان بن کررہے گئے ہے۔آج ہم کو کوئی مسلمان بھائی ملنے چلا آئے۔یا پھر کسی جگہ راستے میں مل جائے ۔تو ایک دوسرے کو بڑے خوش ہوکر ایسے ملے گئے ۔کہ اس سے بڑاہمارا کوئی ہمدرد نہیں لیکن جیسے ہی ایک دوسرے سے دور ہوئے تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔اور تھوڑے سے لالچ کے لیے یہ بھی بھول جاتے ہے۔کہ ہم جس کے پیٹھ پیچھے خنجر مار رہے ہے۔اس اچھے اور مخلص انسان کے ہم پر کتنا احسان ہے۔
آج تو لوگ احسان فراموش بن چکے ہیں۔کہتے ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ناکارہ نہیں ہوتی۔لیکن ہم تو پھر انسان ہے۔اور مسلمان ہے۔ہمارے ضمیراگر مردہ نہ ہوتے۔تو ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہوتی ۔لیکن کیا کرئے۔کہ ہمارے ضمیر مردہ ہوکررہے گئے ہے۔کیا ہمارے دین اسلام سے ہم کویہی درس ملتا ہے۔کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائی کی برائی کرئے۔اس کا حق کھا جائے۔جو کوئی ہم کواپنی انگلی پکڑ ائے۔تواس کا بازو ہی کھینچ لیے ۔آج جو کسی کے ساتھ اچھا کرتاہے ۔وہ اس کا دشمن بن جاتاہے۔وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے ہی تو اس کو راستہ دیکھایا ہے۔اور مشکل وقت میں اس کی مدد کی تھی۔
All Muslim Brothers
لیکن اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کچھ ہم بھول جاتے ہے۔ہمارئے پیارئے نبی ۖ نے توہم سب مسلمانوں کو بتایا کہ تم سب آپس میں مسلمان بھائی ہو۔چاہیے کوئی گورا ہویا کالاامیرہویا غریب سب آپس میں بھائی بھائی ہے۔لیکن آج بغل میں چھوری منہ میں رام رام ۔جھنگ جو قدیمی اضلاع میں سے ایک ہے۔اس کے کسی بھی چوک میں آج تک کوئی ٹریفک سکنل نہیں لگ سکے۔چند ماہ قبل یہ بات سننے کو آئی کہ جھنگ میں ٹریفک سگنل لگ رہے ہے ۔اس کے لیے ٹی ایم اے جھنگ نے اخبار اشتہار کروا دیا کہ اس کے ٹھیکے کروا ئے جائے ۔اور چوکوں میں ٹریفک سگنل لگ رہے ہے۔اس خبر سے عوام کے دلوں میں کافی حد تک خوشی کی لہر دیکھنے میں آئی۔
مگر پھر نہ جانے کیا ہوا ۔کہ ٹریفک سگنل والی بات صرف خبر ہی بن کر رہے گئی ۔اور ٹریفک سگنل آج تک نہ لگ سکے۔آپ کو جھنگ کا لاری اڈاویران ملے گا۔وہ اس لیے کہ ایوب چوک جو جھنگ کا مین اور مشہور چوک ہے ۔اس پر کافی عرصہ سے بس اڈئے۔اور ویگن سیٹیڈ بنادئیے گئے۔اور دوسری طرف ٹرک اڈئے بنادئیے گئے ہیں۔چند ایک مفاد پرست لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے جھنگ کی عوام کوبہت سی پریشانی کاسامنا کرنا پڑرہاہے۔ لیکن اس مسئلے کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا گیا۔یہاں تو ایسی حالات ہوئی پڑی ہے جیسا کہ میں پہلے بھی لکھتا رہو اور جب تک مسلئے حل نہیں ہوتے اس وقت میں بھی لکھتا رہوگا۔اور اپنے شہر کی خاطر لکھتا رہوگا۔کوئی تو ایسا فرض شناش افیسر آئے گا ۔جھنگ کے مسائل کو ختم کرکے دم لے گا۔
آج شہر میں پھرے تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوگا۔کہ جو کروڑوں روپے کے ٹینڈر ہوئے۔جو محکمہ ٹی ایم اے جھنگ۔لوکل گورنمنٹ اور پبلک ہیلتھ کے ٹینڈر بھی ہوئے اور کام ہوئے یا کئی سکیمے ابھی بھی نامکمل پڑی ہوئی ہے۔جن پر ابھی تک ٹھیکیدار حضرات نے کام بھی شروع ہی نہیں کیا۔اب تینوں محکموں کے کام کئی چل رہے ۔کئی کام ابھی تک شروع ہی نہیں کیے گئے۔اور جو کام ان محکموں نے کروائے ہے۔ ان کی ڈالی گئی پی سی سی سلیپ ۔نالیاں ۔سیوریج ۔پولیاں وغیرہ جو ٹھیکیدار حضرات بنا کر ابھی واپس جاتے ہے۔تو کچھ ہی دنوں بعد وہ پی سی سی سلیپ ۔نالیاں ۔پولیاں وغیرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکررہے جاتی ہے۔آج اگر شہر میں دیکھے تو آپ کو یہ پتہ نہیں چلے گا۔کہ جو جو سکیمے چل رہی ہے۔وہ کام ٹی ایم اے جھنگ کاہے۔کہ لوکل گورنمنٹ کا ۔یا پھرپبلیک ہیلتھ کا۔
Milk
خیر میں بات کررہاتھا۔ضمیر کی کہ آج ہم مسلمانوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔کسی دوکان دار سے کوئی چیز خرید کرئے ۔تو اس کا ریٹ لسٹ سے زیادہ وہ رقم وصول کرئے گئے۔ نرخ نامہ سے زیادہ ریٹ وصول کررہے ہے۔آج اگر دودھ کو دیکھ لے شہر میں جو گوالے دودھ لیے کر آتے ہے۔اکثر دودھ ملاوٹ والا ہوگا۔اور اس نے اس دودھ کو بھی ڈیری کروایا ہوا ہوگا۔ایسے ہی آپ سرخ مرچ ۔دھنیا ۔ہلدی۔چائے کی پتی وغیرہ لے کر چیک کرئے ۔تو آپ کو پتہ چلے کہ ان دوکان حضرات جو ہمارئے ہی مسلمان بھائی ہے ۔ہم کو ایک تو ریٹ لسٹ سے زیادہ پیسے وصول کررہے ہے۔اورجو بھی اشیاء اس سے خرید کی وہ بھی ایک نمبر نہیں ہوگئی۔ریٹ لسٹ تو دوکاندار حضرات کے پاس ہوتی ہے ۔اس کے باوجود وہ ریٹ زیادہ وصول کررہے ہوتے ہے۔خیر گوالوں کوہی دیکھ لے ۔کہ وہ جو دود ھ شہر سیل کرنے کے لیے کرآتے ہے۔پہلے اس کو ڈیری کرواتے ہیں۔
پھر جاکرلوگوں کے گھروں میں دیئے آتے۔ان لوگوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔کہ ریٹ تو یہ خالص دودھ کا وصول کررہے ہے۔اور دودھ وہ دے رہے جس میں سے کریم بھی نکال لی گئی ہو۔آنے والی اس نسل کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔جس نے ایسا دودھ پینا ہے۔کچھ لوگوں کا تو دودھ میں سے کریم نکال کر بھی دل خوش نہیں ہوتا ۔وہ اس دودھ میں بھی پانی ڈال کرعوام کو پلانے میں لگے ہے۔یہ لوگ تو یہ بھی بھول گئے ہے۔کہ ایک دن مرنا ہے ۔اس دن اپنے رب کو کیا جواب دیئے گئے۔ شہر میں کئی دودھ کی دوکانے بن چکی ہے ۔جو منوں کے حساب سے ڈیلی دودھ سیل کررہے ہے۔ان کو آج تک چیک کرنے کوئی نہیں گیا۔اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ریٹ لسٹ ہوتی ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اندھا راجا بے دارنگری۔عوام تو جاگ رہی ہے ۔لیکن افسران نظر نہیں آتے ۔جو ریٹ لسٹ چیک کرئے یا یہ دودھ کوکوئی چیک کرئے۔اور کریانے اور ہوٹلوں پر کھانوںکوجاکرچیک کرئے۔کوئی تو ایسا نیک ایماندار فرض شناش افسر ہوگا ۔جس کا ضمیر زندہ ہوگا۔جو ان تمام چیزوں پر کنٹرول کرئے گا۔
Human Rights
آج ایک بھائی دوسرے کا حق ایسے کھا رہاہے ۔جیسے سب کچھ اس کا اپنا ہو۔آج کے مسلمان بھائیوں کو دیکھوں کو زن کے پیچھے اپنے بھائی سے لڑ رہاہے ۔تو کوئی زمین کے پیچھے۔تو کوئی زر کے پیچھے آج ہم یہ بی بھول چکے ہے۔کہ چند ایک مفاد کی خاطر ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ملاوٹ شدہ اشیاء دیئے رہے ۔یا پھرزن ۔زر۔زمین کے لیے لڑ رہے ۔آج ہم لوگ اپنے مسلمان بھائی کا حق کھا کر ناچ گانے کی محفلے سجائے بیٹھے ہوتے ہے۔
یہ پھر اپنے ہی بھائیوں کی پیٹھ پیچھے برائی کررہے ہوتے ہے۔وہ شخص جو اس وقت ہمارئے پاس بیٹھا ہوتا ہے ۔وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے پاس سے اور کئی بات بناکر اس کے بھائی کوبتا کر ان میں جھگڑا ڈالوا دیتا ہے ۔اور ان دونوں بھائیوں کا ہمدرد بن کر ان دونوں کو خواب دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔جب ان دونوں بھائیوں میں کوئی خداکا بندہ راضی نامہ کرواتا ہے ۔تو اس وقت ان کو پتہ چلتا ہے کہ ہم بھائیوں کی آپس میں لڑائی کرواکے دونوں سے اپنا مفاد حاصل کرتا رہاہے ۔