تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پاکستانی قوم دعا گو ہے کہ رد الفساد کا مشن تحریک کی صورت اختیار کر جائے تاکہ جلد فسادیوں سے ملک کی جان چھڑائی جا سکے ۔پورا عالم کفریہود و نصاریٰ،امریکی برطانوی بھارتی سامراجی قوتیں صرف اسی پراپیگنڈا پر تلی ہوئی ہیں کہ اسلام اور مسلمان صرف دہشت گردی کا نام ہے۔حالانکہ مسلمان فسادی نہیں جہادی ہیں اور جہاد تو زمین سے فساد اور فسادیوںکو ختم کرنے کا نام ہے ایسا ہی پراپیگنڈا انگریزوں نے ہندو پاک چھوڑنے سے قبل ہندوستانیوں کی جنگ آزادی میں ناکامی کے دوران اور بعد میں کیا تھاانہوں نے خصوصی طور پراپنے ایک سرکاری دفتری کلرک غلام احمد کو بھی اس کام پر لگا دیا تھاجس نے نام نہاد قادیانی فتنہ کو جنم دیا۔اس ناپاک اور لعنتی شخص نے حکومتوں کی تابعداریوں کو ہر صورت میں عوام پر لازم قرار دیا۔
خواہ حکمران کتنے ہی اسلام دشمن کیوں نہ ہوں انگریزوں کی تابعداری کے فلسفہ کے لیے انہوں نے کتب ہائے لکھ کر کئی الماریاں بھر ڈالی جس کا ذکر وہ ملعون و مرتد شخص یوں کرتا ہے کہ میں نے جہاد کے خلاف اور انگریز حکومت کی تابعداری کے لیے اتنی کتابیں لکھی ہیں کہ جس سے درجنوں الماریاں بھر سکتی ہیں اس مرتد شخص نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور نعرہ رسالت اور آقائے نامدارمحمد رسول اللہۖ کے لائے گئے دین اسلام کی نعوذ باللہ بیخ کنی کے لیے خدا اور اس کے رسولۖ ،تمام انبیائے اکرام اور پیغمبروں کی توہین کے لیے کتب و رسائل لکھے جسے نقل کفر کفر نہ باشد کی وجہ سے یہاں نقل نہ کیا جارہا ہے ورنہ اس نے وہ طوفان بد تمیزی اٹھایا کہ الامان الحفیظ ۔اس کے کفریہ عقائد کے پھیلائو کو روکنے کے لیے علمائے حق کی جد و جہد کو پوارا عالم اسلام آج بھی سلام پیش کرتا ہے صرف1953میں چلائی جانے وای تحریک تحفظ ختم نبوت کے دوران لاہور کی شاہراہوں پر دس ہزار بچے جوان اور بوڑھے شہید کر ڈالے گئے۔ بعد ازاں نشتر کالج ملتان کے طلباء کی طرف سے شروع کی گئی تحریک نے انھیں کفر کے اندھیروں میں دھکیل ڈالا جس پر مقتدر بھٹو صاحب نے بھی اس تحریک کے نتیجہ میں ان مرتدین و زندیقین کوقومی اسمبلی کی وساطت سے غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے اپنا پارٹ ادا کیاکہ اس تحریک کے نتیجے میں حکومتی ڈھانچہ متزلزل ہورہا تھا اور خود حکومت آج گئی یا کل کا سماں پیدا ہو گیا تھا۔
بالآخر اتفاق رائے سے 7ستمبر1974کے تاریخی دن قومی اسمبلی کی مشترکہ قراداد کے ذریعے قادیانی نجاست سے جان چھوٹ گئی۔وہ غیر مسلم ٹھہرے چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے کی طرح قادیانی مرتدین گاہے بگاہے دین اسلام پر حملہ آور ہو کر اپنی خباستوں کا اعلان کرتے رہتے ہیںا ور اپنی نام نہاد مظلومیت کا رونا رو کر بیرونی سامراجی ممالک سے مراعات و فنڈز حاصل کرتے ہیں اور یہودیوں کی زبردستی بسائی گئی ریاست اسرائیل کی طرح چناب نگر (سابق ربوہ) کو اپنی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیںاور حکمرانوں کو اس کا ادراک تک نہ ہے اور نہ ہی جرآت اور نہ ہی شایدارادہ کہ ان کے کفریہ عقائدکے تشہیری ٹی وی چینلز کے خلاف کاروائی کر سکیں شاید آئندہ انتخابات میں ووٹ اور وافر نوٹ حاصل کرنے کے لالچ نے ان کے پائوں کو جکڑ رکھا ہے حالانکہ آئین اور بعد میں کیے گئے ضیاء الحق کے مزید اقدامات پر اگر عمل درآمد کیا جائے تو قادیانی ناسوروں کا پودا خود بخود اکھڑ کر یہ مرتدین و زندیقین بھی خود بخود ہی جہنم واصل ہو سکتے ہیں اور مرتد کی شرعی سزا نافذ ہو سکتی ہے۔
یہودیوں کی رعایت عالم اسلام کے سربراہ و ذمہ داران کرتے رہے اورحالت بہ ایں جا رسید کے وہ غزا کی پٹی اور دیگر مغربی سرحدوں پر مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام کر رہے ہیں اسلامی ممالک کی افواج نے پچاس سال قبل یہودیوں سے شکست کھائی اور اب صرف زخم ہی چاٹ رہے ہیں اور اسرائیلی نا سور پودا قد آور در خت بن چکا ہے بیعینہہ قادیانیوں سے رعایتیں کرنا اور انھیںکلیدی عہدوں پر براجمان کیے رکھنا پاکستانی سا لمیت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور چاروں طرف سے ہندو اور ان کے ایجنٹوں کے گھیرے میں ہیں ادھر ٹرمپ مودی بھائی بھائی کے نعرے بھی لگ رہے ہیں ۔ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بھارت کے ساتھ مصلحتاً در گزر کی پالیسی اپناتے ہیں ہندوستانی ثقافت کی ہم پر یلغار ہے اور ہم اسے روکنا بھی چاہتے ہیں تو مودی کی یاری آڑے آجاتی ہے حتیٰ کہ ان کی فلموں پر بندش بھی اٹھائی جا چکی۔
علامہ اقبال نے تقسیم ہند سے قبل جب یہ کہا کہ کوئی اللہ کا بندہ اٹھے اور اسلامی جہاد کے فلسفہ کی وضاحت کرے تو 17سالہ سید مودودی نے الجہاد فی السلام نامی کتاب لکھ کر سامراجیوں کا بدرجہ اتم جواب دے ڈالامگر اپنی خفیہ کمین گاہوں سے فلسفہ جہاد کے دشمن آستین کے سانپوں کی طرح مذموم حملے کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ اسلامی جہاد تو جہاد باالنفس عقائد کی درستگی اور غلاظتوں سے خود کو پاک کرنے کا بھی نام ہے یہ مخالفین کے خلاف صف آرا ہو جانے کا نام نہیں بلکہ جب ملت اسلامیہ کے عقائد اور اس کی سرزمین پر کوئی سامراجی یا کفریہ قوت حملہ آور ہو تبھی اس کا موثر جواب دیناہے مگر سامراجی ہر داڑھی والے خصوصاً پاکستانیوں کو دہشتگرد کہتے تھکتے نہیںمسلمان جہادی ضرور ہے مگر فسادی ہر گز نہیں جب بھی کفریہ عقائد زبردستی مسلط کیے جاتے ہیں تو مؤثر تحریروں و لٹریچر سے ان کا مقابلہ جہاد باالقلم کہلاتا ہے۔
جہاد قتال کا نام ہی نہیں بلکہ باغی نفس کو قابو رکھتے ہو ئے دینی اقدار کی حفاظت کا نام ہے کفریہ طاقتیں مساجد و مدارس کو دہشت گردی سے جوڑ کر اپنے مخصوص مقاصد پورا کرنے پر تلی ہیں تاکہ بقیہ پاکستان کے بھی ٹکڑے کر ڈالیں آج جس قومی اتحاد کی ضرورت ہے وہ صرف اللہ اکبر کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو جانے اور عقیدہ تحفظ ختم نبوت کی ترویج و اشاعت کے بغیر ممکن نہ ہے جہاد پاکی اور طہارت کا نام ہے انسانوں کے روپ میں بھیڑیوں کے خلاف پاکستانی افواج بلاشبہ اپنے ماٹو جہاد فی سبیل اللہ پر عمل کرتے ہوئے بیخ کنی کر رہی ہے مگر واضح رہے کہ کسی دوسرے نام نہاد سویلین مسلح جتھے کا وجود اور ان کے اقدامات قطعاً جہاد نہیں ہو سکتے ایسے اقدامات سے فساد فی الارض رونما ہوتا ہے جو کہ دین اسلام اور اسلامی جہاد کا مقصود ہی نہ ہے۔