مظفر نگر کی بیٹیوں کو کب انصاف ملے گا؟

Supreme Court

Supreme Court

بھارتی سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے مظفرنگرضلع میں ستمبر 2013 میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی یا ایس آئی ٹی سے کرانے کی درخواست مسترد کر دی اور کہاہے کہ اگر مرکزی حکومت اور ریاست کی خفیہ ایجنسیوں نے وقت پر اس بارے میں پتہ لگا لیا ہوتا تو فسادات کو روکا جا سکتا تھا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پی ستھیاسیوم کی سربراہی میں عدالت کے ایک بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش کی ریاستی حکومت مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے اور ابتدائی مراحل میںفسادات کو روکنے میں ناکام رہی۔ عدالت نے کہا کہ جو بھی سرکاری افسر قصوروار پائے جائیں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو بروقت خبردار کرنے میں ناکام رہنے پر وفاقی اور ریاستی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بھی سخت نکتہ چینی کی اور حکم دیا کہ جن لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں انھیں ان کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر گرفتار کیا جائے۔

بھارتی ریاست اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں گذشتہ برس اگست اور ستمبر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں ستر سے زائد مسلمان شہید اور ایک لاکھ سے زائد افرادنے اپنے گھر بار چھوڑ کر وہاں سے ہجرت کی اور مدرسوں، اسکولوں، عیدگاہوں اور دیگر مقامات پر ڈیرے ڈالنے پر مجبورہوئے۔ان فسادات سے متاثرہ ہرشخص اپنے سینے میں ظلم کی ایک الگ داستان چھپائے بیٹھا ہے ۔ مظلوم مسلمانوں میں سے کوئی اپنے بیٹے کو کھوچکا ہے تو کسی کی بیٹی غائب ہے۔کئی مائیں ایسی ہیں جن کی جوان بیٹیوں کوہندو انتہا پسند زبردستی اغواء کر کے لے گئے ۔کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل پر آنسو بہارہی ہے تو کسی کا جوان بیٹا چھن گیا ہے۔ہزاروں مسلمانوں کے اثاثے لٹ گئے۔ درجنوں شیر خوار بچے چھین کرانہیں والدین کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ہزاروں مسلمان تاحال فساد متاثرہ کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں اور کسی صورت اپنے گھروں کو واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔مظفر نگر فسادات کے فوری بعد سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اس کی انکوائری سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم سے کرائی جائے تاکہ فسادات کے پیچھے کارفرما مبینہ سازش کا پردہ چاک کیا جاسکے۔سپریم کورٹ میں دائر درخواستوںمیں الزام لگایا گیا تھا کہ ریاستی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والی تفتیشی ایجنسیاںجانبداری سے کام لے رہی ہیں۔

یہ فسادات ہندو انتہا پسند جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئے تھے اور ریاست میں سماجوادی پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ مرنے والے زیادہ تر مسلمان تھے’تب سے یہ الزام بھی گردش کر رہا تھا کہ فسادات ایک منظم منصوبہ بند ی کے تحت کرائے گئے اور ان کا مقصد پارلیمانی انتخابات سے قبل مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانا تھا۔یہ بات اس لحاظ سے حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے جلسوںمیں نہ صرف ان فسادات کے مجرم سنگیت سوم اور سریش رانا جیسے مقامی لیڈر شریک ہوتے رہے ہیں بلکہ انہیں اسٹیج پر بلا کر باقاعدہ گلپاشی کی جاتی رہی ہے۔ آگرہ جلسہ کے دوران بھی یہی کچھ کیاگیا تھا۔بی جے پی فسادات کے بعد سے مسلسل ہندو انتہا پسند جاٹوں کی سرپرستی کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آ ج تک مظفر نگر فسادات کے اصل مجرموں کو گرفتار نہیں کیا گیا جب کبھی مسلمانوں کے شدید احتجاج پر پولیس مجرمو ں کی گرفتاری کیلئے جاٹوں کے گائوں کا گھیرائو کر تی ہے’ وہ پولیس کو مار بھگاتے ہیں اور اہلکار بھی محض کاغذی کاروائی کر کے واپس آجاتے ہیں وگرنہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ پولیس گائوںمیں داخل نہ ہو سکے اور مجرموں کو حراست میں نہ لیا جا سکے۔ بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست اترپردیش سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لئے یہاں خاص طور پر ہندو مسلم فسادات کروانے اور ایک خاص قسم کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مظفر نگرفسادات کے دوران ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے پولیس کی سرپرستی میں نہ صرف گھروںمیں لوٹ مارکی گئی بلکہ والدین کے سامنے ان کی معصوم بچیوں کی اجتماعی عصمت دری کے دل دہلا دینے والے واقعات بھی پیش آئے جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

Muzaffarnagar

Muzaffarnagar

مظفر نگر کی طرح شاملی، بھواڈی، ہنسا پور، محمد پور اور باغپت کے مختلف علاقوں میں بھی یہی کھیل کھیلا جاتا رہا۔ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے متعدد بار کیمپوںمیں پناہ گزیں فساد متاثرہ خواتین کو رفع حاجت کیلئے جاتے ہوئے بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔کیرانا اور کاندھلہ میں قائم کیمپوںمیں رہنے والے مسلمانوںنے اپنی درد بھری داستانیں میڈیاکے نمائندوں کو سنائیں تو وہ بھی اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکے۔ تین بچیوں کی ایک ماں کا کہنا تھا کہ ہمارے کنبے میں چار خواتین تھیں جن میں سے اس کی اکیس ، اٹھارہ اور سترہ سالہ تین بیٹیاں تھیں۔ تقریباً دس سے تیرہ کی تعداد میں ہندو انتہا پسندوں نے اس کی بیٹیوں کی عصمت تار تار کی اورمجھے اس بات کیلئے مجبور کیا گیاکہ میں اپنی آنکھو ںکے سامنے اپنی بچیوں کی عصمت تارتار ہوتے دیکھوں۔دکھوں کی ماری زندہ لاش بنی اس ا ماں نے بتایاکہ اس کی دو بیٹوں کو تو فسادیوں نے بعد میں چھوڑ دیا لیکن ایک ابھی تک مجھے واپس نہیں مل سکی ہے جس کا دکھ میں کبھی نہیں بھول سکوں گی۔ اس کے علاوہ ہندو انتہا پسندوں نے ایک اور سولہ سالہ لڑکی کی عزت بھی لوٹی جسے کئی گھنٹے تک قید میں رکھا گیا بعد میں وہ کسی طرح وہ اپنی جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ جب اس لڑکی سے پوچھاگیا کہ کیا تم فسادیوں کو پہچان سکتی ہو تو اس نے بتایا کہ ایک کو میں پہچان سکتی ہوں’وہ جاٹ برادری کے کھاپ پنچائت کے رہنما کا بیٹا تھا۔ لڑکی نے بتایا کہ ان لوگوں نے دھمکی دی کہ ہم لوگ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے اور اگر تم نے انکار کیا تو تمہارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔فاطمہ نامی ایک اور مسلمان خاتون نے بتایا کہ سات ستمبر کو شروع ہونے والے تین روزہ فسادات کے دوران چھ افراد ان کے گھر میں گھْس گئے تھے۔

وہ درانتیاں اور تلواریں لیے ہوئے تھے۔ مسلح ہندوئوں نے اسے ایک کرسی پر باندھ دیا اور اس کے سامنے ان کی 17سالہ بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے لیکن میں اگر یہ بات کسی کو بتاتی ہوں تو میری بیٹی سے کون شادی کرے گا؟ ہماری اپنی برادری ہمیں منہ نہیں لگائے گی۔ اسی طرح انیس سالہ ایک اور مسلمان بہن نے بتایاکہ وہ اپنے دادا کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہی تھی کہ ہندو انتہا پسندوں جن کی تعدا د چھ تھی’ انہوںنے ہمیں روکا’ میرے دادا پر بدترین تشدد کرکے ایک سائیڈ پر پھینکا اورپھرمجھے گھسیٹ کر گنے کی ایک فصل میں لے گئے جہاںچھ گھنٹے تک مجھے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔اس طرح کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جو میڈیا میں نہیں آسکے اور نہ ہی تھانوںمیں ان کی رپورٹ درج کروائی گئی ہے۔انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس تک پہنچیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اجتماعی عصمت دری میں ملوث درندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس سے دیگر خواتین کے حوصلے بھی ٹوٹ گئے اور انہوںنے ایسے واقعات کو پولیس تھانوںمیں رپورٹ کرنا ہی چھوڑ دیا۔ بہرحال اور بھی بہت سی دردناک واقعات ہیں جو یہاں بیان کئے جاسکتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے مظفر نگر فسادات کے حوالہ سے ریاستی حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کی غفلت پر آواز بلند کی ہے تویہ اچھی بات ہے مگر محض اتنا کافی نہیں ہے۔

Global Media

Global Media

جب سولہ دسمبر 2012ء کو دامنی کی عصمت دری ہوئی تو عالمی میڈیا میں خبریں نشر ہونے پر پورا دہل گیا۔ بہت جلد اس کیس کو مکمل کیا گیا اور چار مجرموں کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چلتی بس میں جنسی زیادتی کا واقعہ بہت بڑا ظلم تھا مگر مظفر نگر کی بیٹیوں کے ساتھ دامنی سے زیادہ شرمناک واقعات پیش آئے ہیںلیکن یہاں چونکہ ظلم ڈھانے والے ہندو انتہا پسند اور مظلوم مسلمان ہیں اسلئے ابھی تک اصل مجرم ہی گرفتار نہیں کئے جاسکے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ حکومت پر دبائو بڑھائے اور انہیں ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیاجائے کہ انہیں انصاف مل سکے اور مجرموں کو سخت سزائیں مل سکیں۔

تحریر: حبیب اللہ سلفی

برائے رابطہ: 0321-4289005