25 ستمبر 1969ء کو مراکش شہر رباط میں اسلامی ممالک کی ایک عالمگیر اتحادی تنظیم وجود میں آئی ،جس کا نام organisation of tha islamic conference (OIC) تنظیم تعاون اسلامی رکھا گیا۔ اسلامی ممالک کو اوآئی سی بنا نے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ 21اگست 1969ء کو یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا جس کے رد عمل میں مسلمان ملکوں کو ایک ایسی اتحاد کی ضرورت پڑی جو کسی ایک مسلمان ملک یا کسی غیر اسلامی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم اکٹھا کرکے مظلوم مسلمان یا مسلمان ملک کے لیے موثر آواز اٹھا ئیں اور جب تک اس کوشش میں لگے رہے کہ جب تک اس ملک یا فرد کو انصاف نہیں ملتا۔ اس لیے تنظیم تعاون اسلامی بنائی گئی ، مگر تب سے لیکر آج تک او آئی سی نے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم روکنا تو دور کی بات ہے صحیح طور پر ان کے حق کے لیے آواز تک بلند نہیں کر سکی۔
فلسطین ہو یا افغانستان ، کشمیر ہو یا چیچنیا، شام ہو یا برما دنیا کے کسی بھی حصے میں جائو تو مسلمان اس وقت روئے زمین کی سب سے زیادہ مظلوم قوم ہے ، مسلمانوں سے زیادہ مظلوم و عاجز قوم اس وقت دنیا میں ہمیں کہیں نہیں ملے گی۔ کم و بیش ایک سو تیس کروڑ مسلمان اور اٹھاون اسلامی ممالک ہونے کے باوجود مسلمانوں پر غیروں کے مظالم اور تمام اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم کی خاموشی لمحہ فکریہ ہیں۔
کشمیر جس پر ہندستان نے گزشتہ 72سالوں سے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے ، تب سے لیکر آج تک لاکھوں کشمیروں کو بڑی بیدردی سے قتل کیا جاچکا ہے ، کشمیری مسلمان جو گزشتہ 72سالوں سے کشمیر کی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں ، اس جدو جہد میں کئی مرتبہ اتار چھڑائو دیکھنے کو ملا ہے ، لیکن گزشتہ روز جب بھارتی پارلیمنٹ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے دیگر صوبوں کی طرح ہندوستان کا ایک صوبہ بنادیا(واضح رہے بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا ہے۔) تب سے کشمیر کے آزادی کی تحریک نے بھی زور پکڑ لیا ہے ، جس کے جواب میں قابض بھارتی فوج نے پورے کشمیر میں کرفیولگا دیا ، تحریر لکھنے تک 12دن ہوچکے تے کرفیو کو ۔
بارہ دن سے مسلسل کرفیو ں اور کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کے بعد گزشتہ روز بل آخر مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی ) کو ہوش آگیا اور کشمیر کے معاملے پر اپنا بیان تو جاری کردیا مگر مسلمان ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں او آئی سی اب بھی ناکام ہی نظر آتی ہے ۔ او آئی سی نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو مکمل حقوق فراہم کریں اور ان کو پوری طرح آزادی دے ، بھارت کشمیری مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ عبادت کرنے دے۔ اوآئی سی نے کشمیر کے موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ و عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ آگے بڑے اور کشمیر کے مسئلے کا پر آمن حل نکالیں۔ او آئی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیئے۔ مسئلہ کشمیر پر اوئی آئی سی کا بیان کے حد تک بیدار ہوجانا بھی غنیمت ہے ، اس سے قبل اوآئی سی دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر رسمی بیان جاری کرنا نہ ہونے کے برابر ہے ، بہت کم موقعوں پر او آئی سی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر رسمی بیانات جاری کیا کرتی ہے ، ورنہ برما میں بدھ مت نے کس طرح مسلمانوں کا بڑی بے رحمی سے قتل عام کیا اور بڑی تعداد میں مسلمان آج بھی در بدر ہے ،او آئی سی نے کیا کیا ان برما کہ مظلوم مسلمانوں کے لیے؟
جب سے او آئی سی بنی ہے تب سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تنظیم کا کوئی خاص ردعمل ،ٹھوس منصوبہ بندی اور واضح لائحہ عامہ سامنے نہیں آیا۔ اگر بھارت کسی مطالبے پر مظالم روکنے والا ملک ہوتا تو ستر سال سے زائد وقت گزرنے کو باوجود مسئلہ کشمیر یوں زیر التواء نہ رہتا۔ دنیا بھر کے انسانوں اور تمام ممالک کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور کسی بھی غیر جانب دار ملک کی ثالثی کی پیشکش قبول نہ کرنے والے بھارتی حکمران اوآئی سی کے بہم اعلانات اور مطالبات پر کیا توجہ دیں گے،جبکہ بھارت اس بات سے اچھی طرح واقف کے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے علاوا تمام عالم اسلام اس وقت کشمیر کے مسئلے پر بہت زیادہ بے چین ہیں، جبکہ ہمارے حکمران اور او آئی سی والے اس خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا ہمیں انصاف فراہم کرے گا ، جبکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست و ہمدرد نہیں ہوسکتے۔
او آئی سی کے تمام نمائندہ ممالک کو اور او آئی سی کے کابینہ کو اب ہوش میں آنا ہوگا ، اس سے قبل کے یہ مظالم ان ممالک میں بھی شروع ہوجائے جو خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ عالم کفر چاہیئے و یہود ہو یا عیسائی ، ہندو ہو یا بدھ مت سب کے سب مسلمانوں کے قتل عام اور مسلمانوں پر ظلم و جبر کو باعث فخر سمجھتے ہے، ا س سے قبل کے وہ اس ظلم و جبر کی وجہ سے دنیا بھر کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کو اپنا غلام بنالیں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی ) کو ”خوابِ غفلت سے جاگ نہ ہوگا ”۔ اگر او آئی سی ایسا نہیں کرسکتی تو اپنا وجود ختم کرے تاکہ عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ پیسے جو اٹھاون اسلامی ملکوں سے او آئی سی کو چلانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں اس کی تو بچت ہوگی۔ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اب اپنے حالات خود بدلنے ہونگے، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالات اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات نہیں بدلتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم مسلمانوں کی حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ہدائت دے (آمین)