تحریر: اسلم انجم قریشی مسلمانوں کی بے بسی کا منظر جو نظر آرہا ہے اس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے اور شرمندہ ہیں کہ عالم اسلام کی بے حسی نے اس مقام پر لا کھڑا کردیا ہے کہ دل ودماغ کام نہیں کررہا اور پورے جسم کو تکلیف اس قدر ہورہی ہے کہ رات اور دن بے چینی کے عالم سے گزر رہے ہیں روہنگیا مسلمانوں کی بے بسی پر صدمے سے چورُ چورُ ہوں میرے جسم کے اندر سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔
کاش میں اس قابل ہوتا اور میں ان مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرتا ہے تاہم میں اس بات پر مطمن ہوں کہ میں اپنے ضمیر کے مطابق اپنی ذہانت سے اپنے قلم کے ذریعے آواز اُٹھائوں اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا یہ میرا پختہ ایمان ہے میں کسی پر تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا مگر اللہ اور اس کے رسول مقبول ۖ کے پیغام کو عام کرنے کا مجھے پورا پورا حق ہے اور اُمید ہے عالم اسلام میں بیداری کی لہر اُٹھ جائے
علامہ اقبال کا یک شعر ؛ (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کا شغر )
ُ آپ کائنات کو دیکھیں کے پروردگارعالم نے عظیم عطیہ دیا اور اس ارض وسمامیں انسانیت کی بقا کا نظام کارفرما ہے وہ ہے جذب باہمی اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ بہترین نظام حیات ہے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم سے سلوک غرض پوری زندگی کے ہر پہلو کے لیے ہدایت موجود ہے یک جہتی قوت ہے جو مشکل کو آسان اور ناممکن کو ممکن بنادیتی ہے۔ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ملت اسلامیہ ایک جسم کی مانند ہے آپ ۖ احترام انسانیت کا عظیم پیکر ہیں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا اس لیے اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی مسلمان پر ظلم کے پہار توڑے جارہے ہیں اس ملک کے مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کرنا چاہیے اور ظلم کے خاتمے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور عالم اسلام کو ظلم وبربریت کے خلاف موثر انداز میں آواز اُٹھانی چاہیے جس طرح پہلے عالمگیر اخوت موجود تھی جس کے باہمی جذبے اور اتحاد سے اسلام کا ظہور ہوا وہ آواز جس کی صدائے لاالہ الا اللہ کی بازگشت گونجی اور مسلمانوں کے ملی اتحاد وحدت نے ساری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا جس کی اب اشد ضرورت ہے۔
آج جو دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم مسلمانوں کے آپس کے انتشار کا نتیجہ ہے اور انتشار اس نہج پر پہنچادیا کہ عالم اسلام کو جدُا جدُا اور کمزور کردیا اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف دشمن قوتیں اپنے ناپاک عزائم تکمیل میں سر گرم ہیں اوربرُی طرح نقصان پہنچا رہی ہے مسلمانون کے ساتھ بے انصافیوں ، زیادتیوں اور ان کی حق تلفیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے پہلی عالمی جنگ میں مسلمانوں فوجی معاشی سیاسی طاقت کو کچلا گیا ترکی میں مسلمانوں کی خلافت کا خاتمہ کیا ١٩٦٧ میں مسلمانوں کے قبلہٰ اول مسجد اقصیٰ کو یہودیوں نے آگ لگا دی عراق میں تباہی مچائی غرض مسلمانوں کی نااتفاقی کا غیر مسلم قوتوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور یہ سلسلہ جاری ہے عالم اسلام کی بیداری کے حوالے سے مسجد نمرہ میں خطبہ حج پر ڈاکٹر سعد بن الشتری نے بیت المقدس قبلہٰ اول کا ذکر کیا اور مزید اپنے خطاب میںکہا کہ حج ایک مقدس عبادت ہے جہالت کی رسم و رواج جنہیں اسلام مٹانے کے لیے آیا اسلام امن کا مذہب اوراسلامی تعلیمات دنیا بھر میں امن اور بھائی چارگی کا درس دیتی ہے اسلام شدت پسند جماعتوں کا مخالف ہے اسلام میں غیر مسلم کا خون بہانا بھی حرام ہے مسلم اُمہ تقسیم ہونے سے بچے مسلم حکمران قرآن کے مطابق حکمرانی کریں ہم پر لازم ہے کہ شریعت کے احکامات پر پوری طرح عمل کریں ہر قسم کے تعصب سے گریز کیا جائے زیادتی مسلمان کے ساتھ ہو یا غیر مسلم کے ساتھ اسلام میں منع ہے۔
شریعت اسلامیہ نے والدین کی خدمت کا درس دیا ایمان لانے کے بعد فسق بُرا عمل ہے شریعت پر عمل کرو گے تو اللہ رحم فرمائے گا تقویٰ اختیار کرنے والوں کواللہ دنیا اور آخرت کی فلاح دیتا ہے اللہ رب العزت نے ظلم کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی انہوں نے کہا کہ مسلمان تو وہ ہے جو امن کے قیام کا ذمہ دار ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کی گردن مارنے سے منع کیا ہے اسلام معاشروں کی اصلاح کے لیے زریں اصولوں کو وضع کرچکا ہے انہوں نے اپنے خطبہ حج میں اللہ سے دعا کی کہ مسلمانوں کو قبلہ اول بیت المقدس واپس مل جائے ۔
یہ تھا خلاصہ خطبہ حج کا اب یہ کس طرح حاصل کیا جائے اس پر عالم اسلام کو عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا ۔ مسلمانوں نے دین اسلام کی بقا و سلامتی کے لئے بے شمار قربانیاں دیں جن میں ہاشمی خاندان کی عقلمند خاتون حضرت زینب عنہا نبی کریم ۖ کی نواسی حضرت علی کی بیٹی اور حضرت امام حسن حضرت امام حسین کی بہن مسلمان خواتین میں ایک منفرد اور تاریخ ساز حیشیت رکھتی ہے۔
آپ نے حضرت امام حسین کی شہادت کے موقع پر جو کردار ادا کیا اور بہن کی حیشیت سے جس جرأت کے ساتھ ذمے داریاں نبھائیں وہ بے مثال ہیں۔ آپ کے دونوں جگر گوشوں عون،ومحمد یہ دونوں فرزند، اللہ کی راہ میں اپنے عظیم ماموں سے وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوئے حضرت زینب عنہا کی یہ قربانی بھی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے آپ نے د ین کی راہ میں بہترین نمونہ پیش کیاجو رہتی دنیا تک روشن رہے گا جو مسلمان خواتین کے لیے ایک روشن مینار کی حیشیت رکھتا ہے ۔حضرت زینب عنہا کا ایمان تھا کہ ظالم کے ظلم کی پردہ پوشی کرنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
اسلامی ممالک کی ایک تنظیم جسے او۔ آئی ۔ سی کہا جاتا ہے یہ ادارہ ا سلامی نام سے قائم کیا گیا تھا اب دیکھنا ہے کے یہ ادارہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے کیالائحہ عمل اختیار کرتا ہے تاہم اس پر کئی دانشور تجزیہ نگار اپنا نقطہ نظر پیش کررہے ہیںمیں یہاں دانشور پروفیسر سید اسراربخاری جو سررہ گزر میں اُمت مسلمہ کے لیے لکھتے ہیں کہ مسلم اُمہ بحشیت روہنگیا مسلمان خبر تو نہیں بے حسی، بزدلی،خودغرضی اور ظلم کی داستان ہے جس کے اب تک کئی دور چل چکے ہیں، مگر مسلم اُمہ شاید اسے دور جام سمجھتی ہے، آج روہنگیا مسلمان بچوں بوڑھوں جوانوں کی گردنیں ظالم کاٹ رہے ، مسلم خواتین کی وسع پیمانے پر عصمت دری کی جارہی ہے، اگر یہی حالت اور ٥٢ اسلامی ممالک نے کوئی توجہ نہیں تو مت بھولیں کہ یہ پورا عالم اسلام برما بنا دیا جائے گا، پھر تو کوئی بھی مسلمان کی مدد کو نہیں پہنچ سکے گا کہ مسلم اُمہ اُمت مظلومین بن جائے گی،( ٣٦) اسلامی ملکوں کا عسکری اتحاد کیا امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا یا مسلم اُمہ کی حفاظت کے لئے؟ انہوں نے علامہ اقبال کا اشعار بھی لکھا کہ ارض حرم سے لے کر تابخاک کا شغر کوئی بھی مسلم قوت روہنگیا کے مظلوموںکی فریاد نہیں سن رہی؟ حد تو یہ ہے کہ تمام انسانی حقوق کی ٹھیکدار این جی او خاموش ہیں، آواز تک بلند نہ کی اور اگر کوئی انسانی حقوق کی تنظیم مدد کو جانا چاہتی ہے تو اسے جانے نہیں دیا جارہا ہے آپ نے مزید لکھا کہ حجاج نے تو ایک مسلم عورت کی آواز پر لشکر کشی کردی تھی مان لیں کہ یہ ہماری تاریخ نہیں، ایک عام بے بس مسلمان جب اسکرینوں پر روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی عصمت دری کے مناظر دیکھتا ہے تو اس کا خون کھول اُٹھتا ہے، کیا کسی اسلامی ملک کے حکمران کا خون صرف اپنی ذات کے حق میں کھولتا ہے؟ اگر ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے تو ایک مسلمان کا قتل ایک کا بھی نہیں،ہمارا بھی نہیں تمہارا بھی نہیں، او آئی سی اگر آج بھی حسب معمول خاموش ہے تو اس کے دروازے بند کردیئے جائیں کرایہ ملتا رہے گا، کیا اب بھی کوئی شک رہ گیا ہے کہ میانمار، فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور عالم اسلام تماشائی۔ پروفیسر سید اسرار بخاری نے ا پنے دکھ کے ساتھ گہرائی پر ممبنی سوچ سے عالم اسلام کو آگاہ کیا ہے۔
اب بات یہ ہے اسلامی شعور کی آگاہی کس طرح یقینا ہو۔ ایک نظر ان اسلامی تحریکوں پر ڈالی جائے جیسا کہ اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک میں موجود ہیں جن میں دعوت اسلامی اور دیگر تبلیغ جماعتیںشامل ہیں لیکن ان کا طریقہ کار الگ الگ ہے مگر موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت برپا کی ہوئی ہے اورانسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جارہی ہے اس پران جماعتوں کی بے حسی واضح نظر آرہی ہے کیوں کہ اب تک سوا چند جماعت کے کسی اور کا عملی کردار سامنے نہیں آیا جو کہ آنا چاہیے تھا بلکہ ان جماعتوں کو وقت ضائع کئے بغیر عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ اصل دینی فریضہ یہی ہے جس پر نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ تمام مسلمانوں کی مثال ایک عمارت کی سی ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ کے سہارے قائم رہتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)