تحریر : علی عمران شاہین وہ 6 جون 1967ء کا دن تھا جب اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودبیت المقدس اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر قابض ہو گئے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج جس نے القدس پر قبضہ کیا تھا’ کا سربراہ موشے دایان تھا اوراس نے قبضہ کے ساتھ ہی القدس کے مرکز میں فوجی کمانڈروں کے ساتھ کھڑے ہوکر اعلان کیا تھاکہ ہم دوبارہ مقدس ہیکل (ہیکل سلیمانی )کی جانب لوٹ آئے ہیں۔ہم اب اسے کبھی اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیں گے۔
اگلادن 7جون کاتھا۔اس روز انہی صہیونیوں نے القدس میں ہی کھڑے ہوکر اگلااعلان کیاکہ” ہم نے آج خیبرکی رسوائی کابدلہ لے لیاہے۔ ”اس سے اگلے روز یعنی 8جون کوایک اور اسرائیلی عہدیدار اورشلومون گوریان نے یہودیوں کے ہمراہ القدس میں اپنی یہودی مذہبی رسومات اداکیں اور اگلااعلان کیا کہ یہودی نسلوں کاخواب شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے۔القدس پر اسرائیل کے قبضہ کے ساتھ ہی اس علاقے بلکہ پورے خطے میں مسلمانوں پربدترین مظالم ڈھانے کا سلسلہ اچانک جیسے امڈآیا۔ اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور بلڈوزروں نے علاقہ میں رہنے والے مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں کو بری طرح روندنا شروع کردیااور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں گھر ملبے کے ڈھیر میں بدل دیے گئے تو مساجدبھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ دنیاکی سب سے بڑی مہاجر قوم فلسطینی بن گئے،اس قبضے کے ساتھ ہی یہودیوں کی تعداد میں مزید لاکھوں کااضافہ ہوااور اسرائیل کو قبضے کی عالمی طورپر جیسے دستاویز ہی مل گئی۔ اسرائیل کے حوصلے اتنے بڑھے کہ لگ بھگ سوادوسال بعد 21اگست 1969ء کے دن مسجداقصیٰ کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے بھرپور تیاری اور منصوبہ بندی سے انتہائی تیز آتش گیر مادے کے ساتھ آگ لگادی۔اس کی لگائی آگ تیزی سے پھیلی اور مسجد کے بڑے حصے کوا پنی لپیٹ میں لے لیا۔قابض یہودی ریاست نے آگ بجھانے میں جان بوجھ کر تاخیر کی تومسلمانوں کو اپنے تئیں ہی آگ بجھانے سے جبراً روک دیا گیا۔
اس بھیانک واردات سے یوں جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف سے بڑا حصہ گرااور مسجد اقصیٰ میں موجود منبربھی جل کرراکھ ہو گیا۔یہ منبروہ تھا جسے صلاح الدین ایوبی فتح القدس کے وقت اپنے ساتھ لایااور اپنے ہاتھوں سے اسے نصب کیاتھا۔ مسجداقصیٰ کی آزادی کے لیے 16جنگیں لڑنے والے صلاح الدین ایوبی کواس فتح کا اس قد رشوق اوریقین تھا کہ یہ منبروہ ہرجنگ میں ہمیشہ ساتھ رکھتے کہ جیسے ہی مسجداقصیٰ میں داخل ہوںگے تو اسے اپنے ہاتھوں سے نصب کریںگے اوریوں اللہ تعالیٰ نے ان کاجذبۂ صادقہ پورابھی کرکے دکھایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی عظیم فتح دشمنوں کو صدیوں کوئلوں پر لوٹنے پرمجبور کرتی رہی ۔اس سارے عرصہ میں انہوں نے القدس پرقبضہ کے لیے طویل منصوبہ بندی کی۔
پہلی جنگ عظیم کے بعداور دوسری جنگ عظیم کے اختتام پردنیابھر سے یہودیوں کوعالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ ‘فرانس’ برطانیہ اور روس نے فلسطین لاکر بساناشروع کیا تھا۔ پہلے پہل فلسطینیوں سے ان کی زمینیں بھاری معاوضے پرخریدنے کاسلسلہ شروع ہوا توکرتے کرتے فلسطینیوں کی بے دخلی پریہ سلسلہ منتج ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی اتحادیوں نے نازی جرمنی کو شکست دی تھی اورترکی چونکہ پہلی جنگ عظیم میں بھی جرمنی کا ہی اتحادی ہونے اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے سکڑ کر انتہائی کمزور ہوچکاتھا’سواب خطے میں مسلمانوں کی ایسی کوئی قوت ہی نہیں تھی جو یہودیوں کی اس نئی عالمی سازش کا مقابلہ بلکہ سامناکرتی ۔ یوں عالمی طاقتوںکے سامنے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں تھی۔ چند ہزار یہودی باسیوں کی بنیاد پر مزید چندلاکھ یہودیوں کے فلسطین کی زمینوں پر خریداری کے ساتھ قبضے مضبوط ہونے کے ساتھ ہی یہاں 14مئی 1948ء کو اسرائیل نام کے ملک کے قیام کااعلان کردیاگیاجسے صرف ایک سال بعد یعنی 11مئی 1949ء کو باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ نے آزاد ریاست تسلیم کرکے اپنارکن بھی بنالیا۔
جی ہاں! وہی اقوام متحدہ جو مسلمانوں کو دنیا کے کسی کونے میں کہیں کوئی حق دینے کو تیارنہیں’البتہ مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے اس کے دروازے ہر وقتکھلے ہیں۔ اسرائیل کے اس پھیلاؤاور عالمی طاقتوں کی کھلی مدد کو دیکھتے ہوئے عربوں نے اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کیااور اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کو رکنیت ملتے ہی یعنی 15مئی 1948ء کو ہی عرب اسرائیل جنگ کاآغاز ہوا جو 9مہینے 3ہفتے اور 2دن جاری رہی۔اس جنگ میں اسرائیل کو بھرپور امریکی اور یورپی مدد اورہر طرح کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی فراہمی کی وجہ سے کامیابی ہوئی تو فلسطینیوں کو وسیع پیمانے پراپنے علاقوں سے نکلنا پڑا اور ان کی بڑی تعداد پڑوسی ملکوں خصوصاً اردن کی جانب چل دی۔ اسرائیل کو عالمی طاقتوں کی بے پناہ پشت پناہی سے اس کے پاس مسلسل جدید سے جدید اسلحہ کے انبار لگے تواس نے انہی کی بدولت دوسری جنگ جون 1967ء میںبھی پڑوسی ممالک کو بیک وقت شکست دے کر ان کے وسیع علاقوں پرقبضہ جما لیا۔
یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی جنگی بیڑا جوسمندرمیں اسرائیل کی مدد کے لیے ہمہ وقت موجود تھا ‘کی مدد سے عرب ملکوں کی فضائیہ اوراڈوں کو تباہ کرکے رکھ دیاگیاتھا۔ تیسری جنگ کے بعد حالت یہاں تک پہنچی کہ مصر کو اپنا صحرائے سینا چھڑانے کے لیے اسرائیل کو باقاعدہ ریاست تسلیم کرناپڑا۔ اسرائیل کے خلاف آج تک ہر چھوٹی بڑی قرارداد امریکہ نے ہی اقوام متحدہ میں ویٹوکی ہے اور اس پر کوئی لب کشائی نہیں کرسکتا۔
اسرائیل کے ناپاک قدموں کو خطے سے نکالنے کے لیے عرب ملکوں نے تیسری جنگ 6اکتوبرتا25اکتوبر 1973ء میںلڑی لیکن اس میں بھی نتیجہ اسرائیل کی ہی کامیابی کی صورت میں نکلا۔ وجہ یہ تھی کہ ساری عالمی طاقتوں کی ہرطرح کی مدداورحمایت و تعاون اسرائیل کے ساتھ تھا اور عرب ملکوں کے پاس جہاں سامان جنگ انتہائی ناقص تھا’وہیں جاسوسی کاکوئی سلسلہ سرے سے ہی نہیں تھا’ یعنی یہ تینوں جنگیں عرب ملکوں نے اسرائیل نہیں بلکہ امریکہ سمیت ساری عالمی طاقتوں کے ساتھ لڑی تھیں اور انہوں نے اب تک ساری دنیاسے لڑائی مول لے کر اسرائیل کے ان ناپاک عزائم کو روک رکھاہے جن کے تحت اسرائیل نے اپنامجوزہ نقشہ مکہ اور مدینہ تک پھیلا رکھا ہے اور اسے اپنے پارلیمان میں لٹکا رکھاہے۔
70سال سے اسرائیل کے خلاف سینہ سپر فلسطینی دن رات خون کے دریاپارکررہے ہیں۔ آج بھی ان کی جنگ آزادی جارہی ہے۔لاکھوں شہادتیں’70 لاکھ سے زائد بے گھر ہونے کے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیںتو اس وقت بھی اسرائیل کی جیلوں میں ہزاروں فلسطینی قیدہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ‘ اراکین پارلیمنٹ بھی پابندسلاسل ہیں۔اسرائیلی آج بھی ہر روزفلسطینیوں کے گھر گراتااور نئی سے نئی بستیاں تعمیرکرتاہے۔تباہ حال غزہ کا 10سال سے بدترین محاصرہ جاری ہے۔اسرائیل عورتوں اور بچوں کو گولیوں سے بھونتاہے لیکن اس کایہ خواب کہ اس کادارالحکومت مکمل طورپر یروشلم منتقل ہو جائے’ اب تک تشنہ تکمیل ہے۔
مسجد اقصیٰ شام کے علاقے (یعنی موجودہ فلسطین) میں واقع ہے اور اس کو القدس بھی کہا جاتاہے، القدس یروشلم کا عربی نام ہے۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ ہیرڈوس نے ایلیا رکھا تھا اور یہ بحر روم سے ٢٥ کلو میٹر، بحر احمر سے ٠٥٢ کلو میٹر اور بحر مردار سے ٢٢ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ٠٥٧ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ٠٥١١ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح” نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ٣١٠١ قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔
ایک روایت ہے کہ زمین پر پہلی مسجد، مسجد ِاقصیٰ ہے، لیکن محدثین اور اکثر مفسرین کے نزدیک پہلی مسجد، مسجد بیت الحرام ہے، جس کو فرشتوں نے تعمیر کیا ہے: جیساکہ بخاری شریف میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی کا تذکرہ ہے۔
اسرائیلی قبضے کے 50سال مکمل ہونے کے بعد اس سے یہودی قبضہ کو چھڑانے اورامت کو ایک بار پھر شرف وعزت دلانے کا سہرا کس کے سر سجتا ہے’تاریخ کے اوراق اس کے منتظرہیں۔اللھم اجعلنا منھم۔آمین
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)