تیرہویں صدی کے وسط میں بنو عباس کا آخری خلیفہ مستعصم باللہ بغداد میں حکمران تھا،جب ہلاکو کی زیر قیادت منگولوں (تاتاریوں)نے اسلامی خلافت کے سب سے بڑے مرکز پر حملہ کیا۔ فتح کے بعد ہلاکو خان نے مستعصم باللہ کو کھانے پر بلایا لیکن کھانے کے لیے کوئی چیز دینے کے بجائے خلیفہ کے سامنے سونے اور چاندی کے ڈھیر رکھ دیئے۔جو تاتاری فوج نے خلیفہ کے محلات سے لوٹے تھے اور کہا”جناب عالی! آپ نے جو کچھ جمع کر رکھا تھا اب اسے تناول فرمایئے”خلیفہ اسلام نے کہا”میں سونا کس طرح کھا سکتا ہوں؟”اس پر ہلاکو نے کہا تو پھر آپ نے اسے اتنی حفاظت اور اہتمام سے کیوں رکھا ہوا تھا؟
ہلاکو نے محل کے کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور سیم و زر و جواہرات سے لبریز بڑے بڑے آہنی صندوقوں کی طرف تلوار سے اشارہ کرتے ہوئے گرفتارخلیفہ سے کہا”آپ نے ان صندوقوں کے فولاد سے اپنی فوج کے لیے تیروں کے سوفارکیوں نہ بنوائے اور یہ تمام سونا و جواہرات اپنے سپاہیوں میں تقسیم کیوں نہ کیے اور آپ نے پہاڑوں کے دامن میں باہر نکل کر مجھے پہلے سے روکنے اور مقابلے کی کوشش کیوں نہ کی؟”خلیفہ نے بے بسی کے عالم میں جواب دیا”مشیت ایزدی یہی تھی” تاتاریوں کے سپہ سالار نے کہا اچھا تو اب ہم جو سلوک آپ سے کریں اسے بھی مشیت الہیٰ سمجھئے۔اس کے بعد ہلاکو نے خلیفہ اور اس کے بیٹوں کو نمدے میں زندہ لپیٹ کر نمدے کو سی دیا اور پھر خونخوار تاتاری سپاہیوں نے اس نمدے پر گھوڑے دوڑائے۔اس طرح خلیفہ اور اس کی اولاد کو گھوڑوں کے سموں کے نیچے مکمل طور پر روند ڈالا گیا۔
یہ سب کیونکر ہوا؟وجہ وہی جس سے ہرزمانے میں مسلمانوں کو سابقہ رہا ہے۔یعنی تفرقہ بازی،گروہ بندی ،باہمی آویزش اور خانہ جنگی۔خلیفہ کے بڑے بیٹے امیر ابوبکر اور وزیر ابن علقمی کے درمیان انتہائی دشمنی تھی۔اس کے باوجود ابن علقمی نے خلیفہ کو اس طرح سے اعتماد میں لیا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں سے زیادہ علقمی پر اعتماد کرتا تھا۔گرچہ باطنی فرقہ کا قلعہ الموت ہلاکو خان نے فتح کر لیا تھا لیکن وہیں دوسری طرف ہلاکو خاں کو ابن علقمی نے بغداد پر حملے کی خفیہ دعوت بھی دے دی۔ساتھ ہی اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگر ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہوتا ہے تو اسے وہ بڑی آسانی سے فتح کر لے گا اور اس سلسلے میں اس کی ہر ممکن مددبھی کی جائے گی۔
وہیں دوسری طرف خلیفہ وقت کو علقمی نے سمجھایا کہ یہاں دار السطنت میں ہمارے اتنے سارے لشکر بے کار تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، اگر یہ باہر جائیں گے تو کچھ کام کریں گے ۔اس لیے دوراندیشی اور دانش مندی کا تقاضا ہے کہ ان لشکروں کو ان کے سرداروں کے ساتھ مختلف سمتوں میں کسی نہ کسی مشن پر بھیج دیا جائے، اس طرح خزانے کی بھی بچت ہوجائے گی ۔بہی خواہوں نے باربار خلیفہ کو ابن علقمی کی باتوں میں نہ آنے کا مشورہ دیا اور لشکروں کو فوری دارالحکومت میں طلب کیے جانے کو کہا۔لیکن خلیفہ نے جواب دیا کہ پہلے وہ اپنے دانا وزیر سے مشورہ کرنا پسند کرے گا۔علقمی نے خلیفہ کو تسلی دی اور کہا،بھلا منگولوں کی فوج بغداد پر کیسے غالب آسکتی ہے؟
اگر محض ہماری عورتیں اور نابالغ بچے بھی مکانات اور دیواروں پر چڑھ کر کھڑے ہو جائیں اور ایک ایک اینٹ پھینکیں تو منگول لشکر تباہ ہو جائے گا۔خلیفہ کو ایسی ہی خواب آور باتوں کی ضرورت تھی۔وہ اپنی خوب صورت کنیزوں کے ہجوم میں واپس جاکر موسیقی سے لطف اندوز ہونے لگا۔دوسری طرف علقمی کے ہلاکو کے ساتھ رابطے بھی جاری رہے۔اُس کے خط بھی پکڑے گئے اور خلیفہ کو پیش کیے گئے لیکن خلیفہ نے مخالفوں کی دشمنی قرار دے کر کوئی توجہ نہ دی۔ابن علقمی کو خلیفہ کے بیٹے کے ساتھ پر خاش تھی، وہ خلافت کا بھی خیر خواہ نہ تھا، اس نے خلافت کو زک پہنچانے کا نا پاک منصوبہ بنایا تھا جو اس کی توقع سے بڑھ کر کامیاب ہوا۔بلکہ ایسا کامیاب ہوا کہ خلافت کا نام و نشان نہ رہا اور مسلمانوں کو پہلے چنگیز کے ہاتھوں اور بعد میں ہلاکو کے ہاتھوں ایسی چوٹ لگی کہ ان کی بحیثیت ایک عظیم ملت کے ذہنی و روحانی خود اعتمادی ختم ہو گئی۔
Wedding
آٹھ صدیاں گزرگئیں لیکن چوٹ کی تکلیف ہنوز تازہ ہے۔اقبال نے خودی کا درس دیا لیکن خوداعتمادی شاید آج بھی بحال نہ ہو سکی ہے۔احساس کہتری موجود ہے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔تاتاریوں کو کبھی “یاجوج ماجوج”سمجھا گیا،کبھی قریب قیامت کی علامت، کبھی محض غیر مہذب اور سفاک لٹیرے۔ تاتاریوں نے دنیا کے عظیم حصہ کو فتح کیا تھا اور ان کا دبدبہ تمام دنیا پر قائم ہوا۔ان کے مذہب میں کوئی چیز حرام نہ تھی، تمام جانور بلکہ انسانی گوشت بھی ان کے نزدیک حلال تھا۔شادی بیاہ اور نکاح کے جھگڑے میں نہیں پڑتے تھے،ایک عورت کے کئی شوہر ہوسکتے تھے۔۔۔۔”یہ تھے وہ تاتاری جنہوں نے رہی سہی خلافت کا خاتمہ کیا۔
تاریخ کے ان اوراق کو پلٹے ہوئے مسلمانوں کو اپنی موجودہ صورتحال پر بھی غور کر لینا چاہیے۔حالات یہ ہیں کہ مسلمانان ہند کو آج اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔سب سے بڑی نعمت اسلام کی ہے،جس کی بنا پر وہ اس ملک میں اپنی مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔وہیں علم حقیقی،قرآن و حدیث کا علم،ایک ایسی نعمت ہے جو ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی واضح ہدایات اور رسول ِوقت کے ذریعہ فراہم کی ہے،یہ نعمت آج بھی میسر ہے۔دوسری نعمتیں جو گرچہ یکساں انداز میں سب کے پاس موجود نہیں،اس کے باوجود بڑے شہروں میں کافی حد تک مسلمان مال ثروت سے رکھتیہیں،امت کی موجودہ نسل صلاحیتوں سے مالا مال ہے،اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ملت اسلامیہ ہند کو ایک ایسا ملک فراہم کیا گیا ہے،جس کے افراد مہذب ہیں ساتھ ہی بڑی تعداد میں نجات کے حصول میں سرکرداں اور اخروی کامیابی کے خواہاں بھی ہیں۔یہ الگ بات ہے
موجودہ دور میں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو ہر ممکن طریقہ سے بگاڑنے کا عمل بھی بہت منظم انداز میں جاری ہے۔جس کے نتیجہ میں ایک عام شخص لاتعلقی،لاعلمی اور غلط فہمیوں کی بنا پر حقیقت سے ناآشنا ہے۔لیکن اگر اس لاتعلقی کو تعلق میں تبدیل کیا جائے،لاعلمی کے اندھیروں کو علم کی روشنی فراہم کی جائے،اور غلط فہمیاں جو منصوبہ بند پھیلائی جا رہی ہیں،انہیںمحبت وقربت اور علم کے ذریعہ دور کیا جائے،تو وہ دن دور نہیں جبکہ فساد پھیلانے والے ناکام ہوں اور وہ امن و امان قائم ہوجائے جس کی تمنا ہر شخص اپنے دل میں لیے پھرتا ہے۔لہذا اگر مسلمانان ہند خلیفہ مستعصم باللہ اور ابن علقمی اور اہل بغداد کے متذکرہ پیرایوں کو نہ بھولے ہوں تو چاہیے
وقت جو میسر ہے اسے بیکار نہ جانے دیا جائے۔تہیہ کریں کہ ہم ،کم از کم توحید ،رسالت اور آخرت کے اسلامی تصور سے بردارن وطن کو آگاہ کریں گے،جہاں اور جس حال میں بھی ہیںاسلامی زندگی ہی بسر کریں گے،نہ خود اپنے اعمال سے اور نہ دوسروں کی چالوں میں آکر اسلامی تعلمات کو زندگی سے ترک کریں گے، اور نہ خود اسلام کو اپنے قول و عمل سے زک پہنچائیں گے اور نہ ہی ابن علقمی جیسے اسلام ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام سے بغض رکھنے والوں کا ساتھ دیں گے۔
اب ذرا مزید آنکھیں کھول کر اپنی ذات کا محاسبہ کیجئے اوردیکھے کہ آج ہم کیا کچھ کر رہے ہیں؟کن لوگوں کے جھنڈے اور علم ہم اپنے ہاتھوں میں اٹھائے پھر تیہیں؟ وہ کون سے نعرے ہیں جو ہماری زبانوں پر جاری ہیں،ہمارے دل و دماغ اورہمارا قیمتی وقت وصلاحیتیں کہاں صرف ہو رہی ہیں؟بغض،حسد،کینہ ہم خود پروان چڑھا رہے ہیں یاوہ دوسرے ہیں جو ان کاموں کو انجام دے رہے ہیں،افتراق و انتشاراور پراگندگیکا ہم خود شکار ہیں یا دوسرے ہیں جوہمارے درمیان پروان چڑھا رہے ہیں،اور ان جیسے دیگر اعمال کے نتیجہ میں ہم خود اپنی ذات کو دھوکہ دے رہے ہیں یا اپنے حال و مستقبل کو؟ساتھ ہی مختصر جائزے و احتساب کے بعدیہ بھی دیکھے کہ ہم دوسروں کے لیے کیا کچھ خدمات انجام دے رہے ہیں؟
کیا ہم خود کے لیے جی رہے ہیںیا خدمات کے نتیجہ میں دوسروں کے سامنے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں؟جو محروم ہیں ان کی بات نہ بھی کریں تو جن کو میسر ہے وہ بھی کہیں خو د ہی تو سونا و چاندی اور روپیہ و پیسہ دسترخوان پر سجا کر کھانے کے لیے تیار تو نہیں؟گفتگو کے نتیجہ میں ممکن ہے کسی کے ذہن میں اچانک یہ سوال بھی ابھر جائے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟تو پہلی بات یہ کہ ہماری گفتگو کا محور ومرکز ہر لمحہ و ہر لحظہ تنقید برائے تنقید نہیں ہونا چاہیے۔،ہمیں ہر موقع پر بنا سوچے سمجھے کسی کی ہاں میں ہاں بھی نہیں ملانا ہے،نیز امت کے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتیں عطا کی ہیں،ساتھ ہی اخلاص بھی۔ ہمیں ان دو پہلوئوں پر ایک لمحہ رک کر دیکھنا چاہیے کہ ہمارا رویہ دوسروں کے سلسلے میں کیا ہے؟یعنی اعتماد بحالی اور دوسروں پر مکمل اعتماد ہمارا شیوہ ہے یا نہیں؟اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ ہم اللہ پر کامل یقین اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھجہد مسلسل کا حوصلہ رکھتے ہوں۔پھر یہی وہ نکتہ آغاز ہے جو “ہماری “کامیابی کا پیش خیمہ ہوگا۔”ہماری “! یعنی امن و امان کے خواہاں ۔یعنی وہ لوگ جو فساد فی الارض میں مبتلا نہیں ہیں!