تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری لیجئے مہاراشٹر حکومت کی نظر میں اب مولانا ابولا اکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین بھی معتوب ہو گئے۔ یہاں کی حکومت کی جانب سے جن مجاہد آزادی کی فہرست جاری کی گئی ہے، اس فہرست میں شامل یہ دو نام جو پہلے سے شامل تھے ، انھیں ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے۔ یعنی اب کوئی بھی مسلم قائد یاد نہیں کیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اور جس تیزی سے ملک کا منظر نامہ بدل رہا ہے ، اس بدلتے منظر نامے میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا جارہانہ اور ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے ۔ وہ بہت ہی منظم اور منصوبہ بند طور پر تیار کیا گیا ہے۔ جس کے باعث ملک کے مسلمان خوف و دہشت کے سائے میں جینے پر خود کو مجبور پا رہے ہیں ،کہ کب راہ چلتے انھیں زد وکوب کیا جا ئے اور بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا جائے اور اس قتل کے بعد قاتل کو ‘ہیرو’ بنا کر پیش کیا جائے۔ انتہا تو یہ ہے کہ اب ایسے قاتلوں سے نفرت کی بجائے اس کے لئے محبت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کی باضابطہ کوششیں ہو رہی ہیں ۔ بے گناہ اخلاق کے قاتل کی قدرتی موت کے بعد اس کے مردہ جسم کو ترنگے جھنڈے میں رکھ کر سرکاری اعزاز سے نوازا جا رہا ہے، تو ادھر معصوم افروز السلام کو شرمسار کر دینے والی حیوانیت کے ساتھ قتل کرکے اس کی لاش کو آگ کے حوالے کر دیا جا تاہے۔ جس کے صلہ میں اس قاتل کو ایسی ہمدردی اور محبت سے نوازا جاتا ہے کہ اس نے جیسے کتنا بڑا ”کارنامہ” انجام دیا ہے ۔ اس قاتل اور اس کے لواحقین کے لئے باضابطہ عوامی چندہ جمع کیا رہا ہے، سوشل میڈیا پر اس کی بہادری کے قصے بیان کئے جا رہے ہیں ۔ کہیں ایسے قاتلوں کی عدلیہ کی جانب سے بے گناہ قرار دئے جانے پر کئی کمپنیوں کے دروازے ، ان کی ملازمت کے لئے کھول دئے جا رہے ہیں۔ ایسی تشویشناک صورت حال اور ایسے سانحات سے ہم آئے دن روبرو ہو رہے ہیں، لیکن واہ رے ہمارے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلم کوٹے سے پہنچنے والے مسلم ممبران ، جن کے سروں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اور نہ ہی انھیں کسی طرح کی تشویش ہے۔ ایسے شرمسار کر دینے والے واقعات اور سانحات کے بعد احتجاج میں ان ایوانوں سے استعفیٰ تو دور کی بات ، ایک سخت بیان تک دینے کی جرأت تک نہیں کرتے کہ کہیں ان کے اس طرح کے بیان سے ان کی پارٹی کے سربراہ خفا نہ ہو جائیں۔
ایسے ناگفتہ بہہ حالات میں ملک کے مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس اور دہشت کا پیدا ہونا فطری ہے ۔عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایسے مشکل اور غیر یقینی حالات میں ملک کے مسلمانوں کی نگاہیں اپنے مسلم قائدین کو تلاش رہی ہیں ، لیکن ہر جانب سے مایوسی اور ناامیدی ہی نظر آرہی ہے۔ ایسے نازک اور مشکل وقت میں کولکتا میں شیر بنگال کے نام سے مشہو ر سیاسی اور سماجی شخصیت کلیم الدین شمس کے فرزند اور ترنمول کانگریس سے مغربی بنگال اسمبلی کے رکن معین الدین شمس نے ایک اہم کام ایسا ضرور کیا ہے ، جو مسلمانوں کی بے بسی اور مسلم رہنماوں کی بے حسی میں ارتعاش پیدا کرسکتا ہے۔ معین الدین شمس نے اپنی سیاسی بصیرت اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے والد کلیم الدین شمس کے یوم ولادت کے موقع پر گزشتہ 13 دسمبر کو مغربی بنگال اردو اکادمی کے مولانا ابوالکلام آزاد آڈیوٹوریم میں کلیم الدین شمس ویلفئیر فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک جلسہ کا اہتمام کیا ۔ جس میں کلیم الدین شمس کی شخصیت اور سیاست کے حوالے سے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں مسلمانوں کے مسائل اور موجودہ قائدین کا رول کے عنوان سے شہر و بیرون شہرکے سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات کو کھل کر اظہار خیال کی دعوت دی۔اس موقع پر جہاں کلیم الدین شمس کے سلسلے میںمختلف مقررین نے ان کی سیاسی بصیرت، جرأت اور بے خوفی و بے باکی کو یاد کیا اور کہا کہ کلیم الدین شمس کی شخصیت اور سیاست کی اہمیت عہد حاضر میں اس لئے زیادہ توجہ طلب ہے کہ انھوں نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کی ستم ظریفی کے آگے کبھی سپر نہیں ڈالی اور اپنی جوانمردی اور ہمت و استقلال کی علامت بن کر مایوسی وناامیدی کے تلاطم میں ڈوب ابھر رہے ، ملک کے مسلمانوں کے لئے نہ صرف بنگال بلکہ پورے ملک کے لئے امید کی روشنی بن کر سامنے آئے تھے۔
جمشید پور میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کے وقت اپنی جان جوکھم میں ڈال کر وہ جمشیدپور پہنچے تھے اور وہاں کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی دیکھ کر و ہ خود خون کے آنسو رو دئے تھے ،اور قتل کئے جانے والوں کے لواحقین کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی تھی ۔ یہ وہی مرد مجاہد تھے ، جنھوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرپولیس اسٹیشن پہنچ کر فرقہ وارانہ فساد میں مارے گئے مسلمانوں کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لئے ایف آئی آر درج کرانے کی ہمت دکھائی تھی ۔ اس ایف آئی آر کے باعث انھین جان سے مارنے کا منصوبہ بنا یا گیا ، لیکن چند مسلم افسروں نے کسی طرح ان کی جان بچانے اور وہاں سے نکل جانے میں مدد کی تھی۔ کلیم الدین شمس کی بہت ساری تقاریر اور تحریروں کے حوالوںمیں ایک کتابچہ ‘جانب منزل’ کا حوالہ دیا گیا کہ وہ کس قدر دور اندیش تھے ۔ اس کتابچہ کا ایک اقتباس اس بات کا مظہر ہے کہ ان کی دور بین نگاہیں کتنی دور تک دیکھ رہی تھیں۔ اس کتابچہ میں انھوں نے لکھا تھا کہ ” مسلمانان ہند اس وقت انتہائی نازک دور میں ہیں ۔ فاسسٹ فرقہ پرست طاقتیں منظم اور متحد ہو کر صف آرأ ہو گئی ہیں۔ سیکولر طاقتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ ملک کا اتحاد اور ملت کی سلامتی خطرے میں ہے ۔ یہ وقت ہے کہ مسلمان اور تمام انصاف پسند ہندوستانی متحد ہو کر کندھے سے کندھا ملا کر ملک وملت کے دشمنوں کے مقابلے میں مورچہ لگا دیں۔” کلم الدین شمس کی اس بات میں کس قدر صداقت ہے ، اس کا اندازہ عصری حالات کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
ایک زمانے میں جب بمبئی کے مسلمانوں پر ظلم وتشدد کا سلسلہ دراز ہونے لگا اور فرقہ واریت ، وہاں کے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کے درپئے تھی ، تب ایسے نا مساعد حالات میں فلمی دنیا کی کئی اہم ہستیاں بشمول دلیپ کمار مسلمانوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آئی تھیں ۔ اس تعلق سے ایک سوال کے جواب میں کلیم الدین شمس نے بڑے خوبصورت اور دانشورانہ انداز میں کہا تھا کہ ” دلیپ کما رسے میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں ۔ مگر میں انھیں دلیپ کمار کی حیثیت سے کم اور یوسف خان کی حیثیت سے زیادہ جانتا ہوں ۔ ہندوستان میں جس قدر نا انصافیاں اور ظلم و ستم کو جاری و ساری رکھا گیا ہے ، اسے دیکھتے ہوئے اب دلیپ کمار مر گیا اور یوسف خان زندہ ہو گیا ہے ۔’ ‘ کلیم الدین شمس کی یہ بات بھی عصری تناظر میں کافی اہمیت کی حامل ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم وبربریت کے خلاف کسی نے لب کشائی کی ، تو وہ غدار وطن قرار دیا جاتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ہم آپ نے یہ دیکھا ہے کہ عامر خان، شاہ رخ خان ، سلمان خان وغیرہ نے عدم رواداری کے خلاف بس ذرا سی لب کشائی کی تو کس طرح ان لوگوں کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہونے لگے تھے، اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جا نے لگی تھیں اور آخر کار انھیں ان کے آگے خود سپردگی کرنا پڑی تھی۔
ایسے تشویشناک حالات میں یہ فکر بہت ضروری ہے کہ اس ملک میں اب جب کہ مسلمانوں کی آبادی پچیس کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے ، لیکن المیہ یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی میں ایک بھی ایسا مسلمانوں کا اپنا رہنما یا قائد نہیں ہے ، جو مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و تشدد، بربریت وستم اور استحصال ونا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنا تو دور ہمارے کچھ مذہبی نام نہاد رہبر تو بادشاہ وقت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے بھی دیکھے جا رہے ہیں۔
ہم ماضی کے اپنے سنہری تاریخی اوراق کو ا س وقت پلٹنے کی بجائے گزشتہ چند دہایوں پر ایک نگاہ ڈالین تو ہمارے سامنے ایسے کئی مسلم قائدین کی تصویریں ابھر کر سامنے آئینگی ، جنھوں نے اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر اپنی قوم و ملت کے مفادات کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں ۔ گرچہ آزادیٔ ہند کے بعد ایسے مسلم قائدین کی تعداد دھیرے دھیرے کم ہوتی چلی گئی ۔ پھر بھی ہمیں بدر الدین طیب جی ، حکیم اجمل خان ، مختار احمد انصاری، سید الدین کچلو، آصف علی، محمد برکت اللہ ، یوسف میر علی، مولانا آزاد، مظہر الحق، مغفور احمد اعجازی، رفیع احمد قدوائی، سر سید سلطان احمد، ڈاکٹر سید محمود، شاہ محمد زبیر، شاہ محمد عمیر، مسٹر عبدلعزیز، سر علی امام، پروفیسر عبدالباری،عبد القیوم انصاری، غلام سرور، حسن امام،امحمد ایوب، فدا حسین انصاری،شاہ لعل قادری، کامریڈ حبیب الرحمان،مولانا حفظ الرحمان،حیات اللہ انصاری، ہمایوں کبیر، جی ایم بنات والا ،محمد ادیب، بابو خان، وغیرہ کے قوم وملت کے لئے دئے گئے ایثار و قربانیوںکی یاد ضرور آتی ہے۔ لیکن افسوس کہ آزادی کے بعد ملک کے اندر قومی یکجہتی، اتحاد واتفاق،آپسی میل ومحبت، بھائی چارگی اور گنگا جمنی تہذیب وتمدن کو بہت ہی منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے متعصبانہ افکار و عمل کے ذریعہ ختم کرنے کے نا پاک ارادے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کا وجود متزلزل ہوتا جا رہا ہے ۔ راشٹریہ سوئیم سنگھ اور ان کی کئی ذیلی کمیٹییوں نے بڑے شاطرانہ طریقے سے اور اتنے منظم طور پر سازش کاجال بچھا کر فرقہ پرستی کی ایسی فصل تیار کر دی ہے کہ ہر جانب فرقہ واریت، تعصب اور منافرت کی مسموم گرم ہوا بہہ رہی ہے۔ ملک کی پوری فضا اس وقت اس قدر مکدر ہورہی ہے کہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کا بھی موقع نہیں مل رہا ہے اور امن پسند مسلمان ٹوٹتے بکھرتے چلے جا رہے ہیں ۔ ان ٹوٹتے بکھرتے ہوئے مسلمانوں کو سمیٹنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے، بلکہ سیاسی بازیگروں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے انھیں مذید ٹوٹنے اور بکھرنے اور خوف و دہشت کے عالم میں جینے کے لئے چھوڑ دیا ہے ۔ جس کا نتیجہ بہت ہی بھیانک شکل میں روز بروز سامنے آ رہا ہے ۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ، حالیہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے وقت بھی ہمارے سامنے ایک بھی ایسا مسلم قائد سامنے نہیں آیا ، جو آپسی اتحاد و اتفاق کے لئے مسلکی اختلافات کو وقتی طور پر ہی سہی دور کر نے کی کوشش کرتے ہوئے مسلمانوں کوایک دھاگے میں پرونے کی کوشش کرتا ۔ ہر انتخابات کے وقت برساتی مینڈکوں کی طرح نام نہاد مسلم رہنما اور جیبی تنظیمیں سامنے آتی ہیں ۔ یہ سب اپنے اپنے طور پر مسلم ووٹوں (اتحاد) کا سودا کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں کوبے یار و مددگار چھوڑ کر ‘ہائبر نیشن’ میں چلے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی رہبری کا دعویٰ کرنے والے یہ دراصل رہبر نہیں ، رہزن ہوتے ہیں ، جنھیں یہ مسلمان اپنی معصومیت اور لا علمی کے باعث سمجھ نہیں پا تے ہیں ۔ کاش کہ یہاں کے مسلمان بھی اپنے مذہب اسلام کی اس بات پر عمل کرتے ، جس نے یہ بتا یا گیاہے کہ جہاں کہیں دو شخص بھی ہوںاور کسی کام کو انجام دینا ہو ، وہاں ان دونوں میں سے کسی ایک کو اپنا امیر منتخب کرلینا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ ملک کے پچیس کروڑ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعدا د بے سمت نظر آ رہی ہے ، جس کے باعث ملک کی سیاست میں ان کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں رہ گئی ہے ۔ پہلے مسلمان کا مطلب مسلمان ہوا کرتا تھا ، لیکن اب ان میں بھی بہتر فرقے ہو گئے ہیں ۔ اتنے خانوں میں منقسم ہونے کی وجہ کر ان کا شیرازہ بکھرتا چلاجا رہا ہے ۔ جس کا فائدہ دشمن پوری طرح اٹھا رہے ہیں۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ہر شہر میں آپسی اختلافات اور چھوٹی موٹی رنجشوں کو فراموش کرتے ہوئے ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنے اپنے سیاسی ، سماجی رہنمأ اور قائدین کے یوم ولادت یا یوم وفات کے موقع پر ان کے کارناموں کو یاد کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کریں ، ساتھ ہی ساتھ عصری مسائل اور مسلم قائدین کے کردار وعمل پر بھی باتیں کی جائیں ۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ان دنوں جس طرح مسلم قائدین کے نام اور کام کو تاریخ اور نصاب سے ختم کرنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں ، وہ سلسلہ رکے گا اور بہت ممکن ہے کہ عہد حاضر کے مسلم رہنماوں کو اپنی اپنی ذمہّ داریوں کا احساس بھی جاگے ، نیز نئے جوش اور امنگ او رحوصلہ سے بھرے نوجوان بھی اپنے اسلاف کے شاندار کارناموں کو سن اور سمجھ کر میدان عمل میں آئیں اور اداسیوں او رمایوسیوں کے اندھیرے میں ڈوبے مسلمانوں کے لئے امید کی کرن بن کر ابھریں۔ بنگال میں معین الدین شمس نے اپنے والد کے بہانے یقیناََ اپنی سیاسی بصیرت او ردور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا جلسہ منعقد کر ایک بڑا اچھا اور مثبت پیغام دینے کی کوشش کی ہے ۔ جس کے لئے معین الدین شمس کے ساتھ ساتھ ان کے دو بھائی ڈاکٹر جمال الدین شمس او رنظام الدین شمس لائق ستائش ہیں کہ ان لوگوں کی مساعی کوششوں سے ملک کے ناامید اور مایوس مسلمانوں کے درمیان ایک امید جگ سکتی ہے۔بس شرط ہے کہ مسلمان نیند سے جاگیں او ر خاکستر کر دینے والے اٹھتے شعلوں کی لپک کی شدت کو محسوس کریں ، ورنہ روہنگیا مسلمانوں کی بے سر و سامانی اور تباہی و بربادی کاخونچکاں منظر نامہ ابھی ہمارے سامنے موجود ہی ہے۔