مسلم دنیا میں خبر گرم ہے کہ قوم پرست متحدہ عرب امارات نے مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کی ناجائز حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔یہ معمولی کوئی خبر نہیں ۔ بڑی خبر ہے کیونکہ ابھی تو حدیث کے مطابق فلسطین میں ایک بڑا معرکہ ہونا باقی ہے۔ عربوں کے ایک حصے ،متحدہ عرب امارت نے اس جنگ سے پہلے ہی گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ شاید باقی بھی ایسا ہی کریں، کیونکہ یہ مسلمان ہونے سے پہلے عرب ہیں۔ اسی قومیت نے ہی تو مسلمانوں کو برباد کیا ہے۔ علامہ شیخ محمد اقبال شاعر اسلام نے ان ہی کے لیے کہا تھا:۔
یوں تو سید بھی مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔
تم سبھی کچھ ہو بتلائو مسلمان بھی ہو
جب ہم مسلم یک سو تھے توتو بیت المقدس مسجد اقصلی ہمارے پاس تھی۔ جب ہم قومیتوں میں بٹ گئے تو اس پر یہود و نصاریٰ نے قبضہ کر لیا۔ آج اللہ کی دھتکاری ہوئی قوم یہود فلسطین پر قابض ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ عرب اس ناجائز حکومت کو تسلیم کرنے کہ مہم شروع کر رہے ہیں۔ مسلمانوں اپنی اصل پر آ جائو ورنہ دنیا سے مٹ جائے گے۔اس سے قبل صلیببیوں نے مصر اور ترکی کے قوم پرست پٹھو حکمران پریشئر ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرایا تھا۔ صلیبیوں نے سعودی عرب کو ایران سے ڈرا کر اپنی گرفت مکمل کر لی۔ جس سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف نام نہادفوجی اتحاد بنایا تو سپریم کمانڈر صلیبی امریکا کے صدر ٹرپپ کو بنایاتھا۔ یہ اسلامی دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی بزدلی کا مظاہرہ تھا۔ اب امریکا نے سعودی عرب میں بے حیائی کی شروعات کرائیں ہیں۔ جس پر مسلم دانشورں نے سعودی عرب کی تباہی کی پیشن گوئیاں کر دیں تھی۔ لگتا ہے کہ کسی بھی وقت سعودی عرب اور باقی عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے۔پھر سعودی عرب سے مسلمانوں کا دینی رشتہ چھن جائے گا۔لگتا ہے اب دینی قیادت سعودی عرب سے عجم ، ترکی یا پاکستان کی طرف منتقل ہو جائے۔ اللہ کے دین کو قومیتوں کی نہیں مسلمانوں کی ضرورت ہے۔
یہ خرابی پہلے صلیبیوں نے لارنس آف عریبیہ کی سازش سے شروع کی۔ ترک اور عرب قومیت کی کشمکش شروع کرائی۔ پھر تین براعظوں پر پھیلی عثمانی خلافت ہاتھ سے نکل گئی۔دوسری غلطی شاہ سعود سے ہوئی کہ حجاز کی فتح کے بعد حجاز کی اسلامی پہچان کو عرب قومیت پر مبنی سعودی عرب کی طرف موڑ دی۔ مسلمانوں نے اپنے مسلم ہونے پر فخر کی بجائے قومیتوں پر فخر کرنے لگے، جو آج تک جاری ہے۔ جب ہماری پہچان مسلم تھی تو ساتویں صدی سے چودھویں صدی تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر ١٣سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرتے رہے۔ مدینہ کی اسلامی ریاست۔ خلفائے راشدین کی حکومتیں۔ بنو امیہ ،بنو عباس اور آخر میں عثمانی خلافت تک۔ یہ اس لیے تھا کہ اس وقت ہماری پیچان مسلم تھی۔ جب ہم قومیتوں میں بٹے اور تارک قرآن ہوئے تو اللہ نے مسلمانوں کو ثریا سے زمین پر دے مارا۔ یعنی ہم سے اقتدار چھین لیا۔ بقول شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال:۔
وہ معزز تھے دنیا میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہے تارک قرآن ہو کر
١٩٢٣ء میں لوازن معاہدے کے تحت صلیبیوں نے مسلمانوں کوپچاس راجوڑوں میں تقسیم کر کے آپس میں بانٹ لیا۔اب کہیں بادشاہت ہے۔ کہیں ڈکٹیٹرز ہیں۔ اور کہیں صلیبی کنٹرولڈ نام نہاد جمہورت ہے۔ سب راجوڑوں میں صلیبیوں کے پٹھو مسلمان حکمران ہیں۔مسلمان ملکوں کی فوجیں، سیاست، معیشت صنعت و تجارت، تعلیم سب کچھ صلیبیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ مصر اورالجزائر کی جمہوری حکومتوں کو اپنی پٹھو فوجوں کے ذریعے الٹ دیا۔ لاکھوں مسلمان کو شہید کر دیا۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اندر سے تکلیف پہنچی ہے۔ باہر سے تو کفر مسلمانوں سے ہمیشہ اور اب بھی خوف کھاتا ہے۔ برعظیم ہند پاک میں صلیبی تجارت کے نام سے داخل ہوئے تھے ۔ پھر میر جعفر اور میر صادق کے کرداروں سے ساز باز کر قابض ہو گئے تھے۔اسی طرح تاتاریوں کو بھی اندر کے لوگوں نے راستے دکھائے تھے۔ ایسی ہی حرکت متحدہ عرب امارت نے کی ہے۔
یہ تو ابتدا اُسی وقت سے ہو گئی تھی جب طاقت کی بنیاد پر بلفورس معاہدہ ہوا تھا۔ جس کے تحت صلیبیوں نے یہودیوں کو فلسطین میں داخل کیا۔ پھر ساری دنیا کے یہودی فلسطین میں آتے گئے۔ سرزمینِ فلسطین کے اصلی باشندوں سے ظلم اور زیادتی کر کے ان کے گھروں سے نکال دیا۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ کر لیا۔ فلسطینیوں کی مہاجر بستیوں کو بمباری کر تباہ کیا گیا۔ غزہ میں لوگوں کو جیل میں بند کیا ہوا ہے۔ اب ارد گرد باقی علاقوں پر قبضہ کی شروعات ہو گئیں ہیں۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ پر یہ الفاظ کندہ ہیں” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔ اس میں مکہ مدینے کی سرزمین بھی شامل ہے۔
یہودیوں کے غلبے کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ صلیبیوں کو جنگوں کے دوران پیسے یہودی فراہم کرتے رہے ہیں۔ صلیبیوں کی صنعت و تجارت اسلحے کے کارخانے،بنک اور میڈیا سب کچھ یہودیوں کے قبضے میں۔ یورپ اور امریکا میں بظاہر حکومتیں تو عیسائیوں کی ہیں مگر ہر جگہ حکم یہودیوں کا چلتا ہے۔اسی کی وجہ شاعر اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبال نے اپنے ایک شعر میں بیان کر دی تھی:۔
تیری دوا،نہ جنیوا میںہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے ۔
اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں کو ان کے ملک فلسطین سے نکال کر اپنی ناجائز حکومت قائم کر لی ۔ اوّل تو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی قرارداد کو امریکا ویٹو کر دیتا ہے۔ اور خوش قسمتی سے کوئی قرارداد فلسطینیوں کے حق میں پاس ہو بھی جاتی ہے تو اسرائیل اسے ردی کی ٹوکری میںپھینک دیتا ہے۔ایک وقت تھا کہ کی قرضوں میں جکڑی سلطنت عثمانیہ ترکی کے سلطا ن عبدالحمید کے پاس یہودیوں کے نمائندے نے دولت سے بھری بوریاں لے جاکر کہا تھا کہ ہم ترکی کے ساری قرضے ادا کر دیتے ہیں۔ آپ ہمیں فلسطین میں آباد ہو نے کی جگہ دے دیں۔ سلطان عبدالحمید نے اپنی ایمانی قوت کے بل پوتے پر کہا کہ تھا کہ میں آپ کو فلسطینی زمین کا ایک ذرا بھی نہیں دوں گا۔ پھر وقت نے کروٹ لی۔ترکی مسلم شناخت سے قومیت کی شناخت کی طرف پلٹا۔ اللہ نے ترکی کو سزا دی۔تین براعظوں پر پھیلی سلطنت چھین کر صلیبیوں کو دے دی۔
وہی یہودی جو دولت سے بھری بوریاں سلطان عبدالحمید کے پاس لے کر گیاتھا۔ اب سلطان کی معزولی کا پروانہ ہاتھ میں لیے ہوئے تھا۔یہ کیوں ہوا کہ اتاترک نے اسلام سے بغاوت کی اور صلیبیوں کا سیکولرزم طرز حکومت اختیار کیاتھا۔ جنگ عظیم میں ترکی کی شکست کے بعد ١٩٢٣ء میں ایک معاہدہ لوازن صلیبیوں اور ترک حکومت میںہوا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ملک سے اسلامی طرز حکومت کو ختم کر کے سیکولرز طرز کی حکومت قائم کی گئی۔ ترکی عثمانی خلیفہ کو معزول کیا گیا۔ سلطان کے سارے اثاثے ضبط کر لیے گئے۔ سلطان کو خاندان سمیت ملک بدر کر دیا گیا۔ ترکی اپنے سمندر سے گزرنے والے بحری جہازوں سے ٹیکس وصول نہیں کر سکے گا۔ اپنی زمین میں تیل اور گیس کے ذخاہر نہیں نکال سکے گا۔ یہ سب کچھ تب ہوا جب مسلمانوں نے اپنے شناخت مسلم ملت سے ہٹا کر اپنی اپنی مقامی قومیت پر کر لی۔ اب ترکی اردگان کی قیادت میںپھر سے کروٹ لے رہا ہے۔ ١٩٢٣ء کا معاہدہ لوازن٢٠٢٣ء میںختم ہو رہا ہے۔ ان شا اللہ ! نشاة ثانیہ کا دور شروع ہونے کو ہے۔ بقول شاعر اسلام علامہ اقبال:۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تاباخاک کاشغر اس لیے نہ کہ عرب نہ عجم صرف مسلم۔ ۔ ۔ ۔ ۔