مسلمانوں نے کیسے دوسری اقوام کی تہذیب و ثقافت کو فتح کر لیا؟اب کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں پیش قدمی کریں؟ایسا ممکن ہے کہ اس متکرر سوال کو سبھی جانتے اور سمجھتے ہوں لیکن مشکل مرحلہ اس کی تطبیق کا ہے کہ اس سوال کے پیدا ہونے کے نتیجہ میں جواب اور حل پیش کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں پہلی چیز تو مزاج و طبیعت کو تبدیل کرنا اور فطرت و عادات و تقالید موروثہ کو ترک کرنا پڑتاہے اور اس کو ببہت سے لوگ ناممکن تصور کرتے ہیں۔انسان کی طبیعت میں جو برائیاں ان میں سے بغض و عداوت ،حسد و کینہ اور لالچ و کاہلی ،غضہ اور نفرت جیسی لاتعداد بیماریاں موجود ہیں ان سب کو انسان کی طبیعت سے خارج کرنے کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے دو مختلف آراء ظاہرہوتی ہیں کہ انسان کی طبیعت کسی صورت نہیں بدل سکتی اور اگر اس میں کچھ بدلائو آبھی جائے تو وہ حقیقی و دائمی نہیںہوتا۔ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان کی ذات میں جو بھی اچھائی و برائی کی صفات موجود ہیں وہ درحقیقت اس کے گردو پیش میں رونما واقعات اور تعلیم و تربیت اور رسم و رواج اور اسی طرح ایک انسان دوسرے انسان سے ان مجالات میں سے اخذ کرتاہے۔اسی بناپر اس مکتبہ فکر کا یہ کہنا ہے ان وجوہات کی وجہ سے طبیعت و مزاج میں تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔
جبکہ دوسرا مکتبہ فکر یہ رائے رکھتاہے کہ انسان کے مزاج و طبعیت میں تبدیلی لانا ممکن ہے اور یہ امر اس کے اپنے ہاتھ میں موجود ہے کہ انسان اچھائی کی طرف ترقی کرتاہے یا پھر بدی کو اختیار کرکے تنزلی میں گھرتاہے۔ان کا مقامم استدلال یہ ہے کہ انسان پیدا ہوتاہے تو وہ بچہ ہوتاہے اورپھر بڑا ہوتاہے تو اس کے اندر مزاج کی مختلف شکلیں موجود ہوتی ہیں جبکہ جوان ہوکر اس میں مزید تبدیلی واقع ہوتی ہے اور جب شادی کرلیتاہے تو اس کے مزاج یں مزید بدلائو آجاتاہے اسی طرح بڑھاپے میں میں مزاج کے اندر تغیر و تبدل آتاہی رہتاہے ۔یہ انسانی طبیعت میں وقوع پذیر تبدیلی زندگی کے مختلف مراحل میں تبدیلی واقع ہونے کے نتیجہ میں ہے۔
تاہم مسئلہ نفس و طبیعت انسان جو زیربحث ہے اسلام اس کو ایک متمیز انداز سے سلجھاتاہے برعکس حسب بالا کلام ۔قرآن کریم میں انسان کو تبدیل کرنے سے متعلق تہذیبی طورپر قابل فخر اسلوب کو اختیار کرنے کے قواعد و ضوابطع عنایت کرتاہے۔حقیقی صوفی مکتب فکر میں بھی شاندار اسلوب موجود ہیں کہ انسان کے مزاج و عادات کو کیسے تبدیل کیا جائے۔جیسے کہ ایک طبیعت لالچ اور بخل ہے ان دونوں سے ایک مسلم فرد کو احتراز کرنا ضروری و لازمی ہے کیونکہ یہ دونوں بری صفتیں ہیں۔اس وجہ سے اسلام نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ صدقہ و خیرات اور زکوٰة کی ادائیگی لازماً کرے۔چونکہ زکوٰة و صدقات مسلم معقاشرے کو محفوظ کردیتاہے غربت و بیماریوں سے۔اسی طرح کمزور و مفلوک الحال افراد پر بھی زندگی کو باعزت طریقے سے بسر کرنے کے راستے کھول دیتاہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے یا پھر شادی بیاہ ودیگر معاملات میں پیش قدمی و بہتری کرے۔
البتہ یہ بات ضرور پیش نظر رہے کہ اسلام میں ایسے شخص کے لیے کوئی مقام و مرتبہ نہیں جو ہزاروں اور لاکھوں کی ملکیت رکھنے کے باوجود بھی دس روپے کسی فرد کو احسان کے طورپر عطاکرتانظر آئے۔کیونکہ صدقہ خیرات کرنا اور صاحب جودو سخا کا حامل ہونا نماز و ارکان اسلام کی ادائیگی کے بعد ضروری ہے ۔جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا”ہرگز نیکی یہ نہیں یہاں تک کے تم خرچ کرو جس کو تم پسند کرتے ہو”اس آیت میں اصحاب فکر و دانش کے لیے غوروخوض کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا گیا ہے کہ انسان وہ کچھ خرچ نہ کرے جس کو وہ چاہتاہے بلکہ حق تو یہ ہے جو مال اس کو پسند و محبوب ہو وہ راہ خدا میں پیش کرے۔مثلاً ایک آدمی کے پاس دوکپڑے ہیں ۔ایک نیااور خوبصورت ہے جبکہ دوسرا پرانا ہے تو لازمی ہے کہ وہ سخی بننا چاہتاہے اور اللہ کو خوش کرنا چاہتاہہے تو نیالباس کسی مسکین کو عنایت کرے بجز پرانے کپڑا کے دینے کے۔
مسلمان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مال کو جمع کرنے اور گن گن کر رکھنے کی بہت بڑی سزا ہے اس لیے چاہئے کہ وہ اپنا مال غریب و نادار اور متوسط و مفلوک الحال طبقہ پر خرچ کرے کہ وہ تعلیم حاصل کرے یا پھر سنت نکاح کو مکمل کرکے دونوں میاں بیوی گناہ سے بچتے ہوئے تقویٰ و پرہیزگاری کے راستے پر چل پڑیں۔ایسے نیکی کرنے سے دونوں طبقے دائمی و ابدی اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس بہت زیادہ زمین ہے کہ وہ ویران و بغیر کاشت کے پڑی ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی غریب کو عطاکرے کہ وہ اس میں کاشت کرلیں اور اپنی زندگی کو بہتر طریقہ سے بسر کرسکیں۔نبی اکرمۖ نے صحابہ کرام کی تربیت اس انداز سے کردی کہ ان کو بتلا دیا کہ بخیل کی سزا کیا ہے اور سخی کو کن انعامات سے نوازاجاتاہے اور مال خرچ کرنے میں کیا انعام ملتے ہیں جس کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام باہم پیش قدمی کرتے تھے کہ وہ دنیا میں طاقت و قوت سے زیادہ مال خرچ کرجائیں اور اللہ جل شانہ سے انعام و درجہ عظیم حاصل کرپائیں۔گویاان کے دلوں میں غریب و نادار پر مال خرچ کرنا ان کا محبوب عمل بن گیا ۔
ہم دیکھتے ہیں بہت سے صحابہ جو اسلام سے قبل سخت گیر تھے اور ان کے مزاج و طبیعت کے بدلنے کا تصور حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا۔گر ان کے قلوب و اذہان پر اسلام کی ایسی حکمرانی قائم ہوگئی کہ انہوں نے ان کے مزاج و طبیعت میں تبدیلی واقع ہوئی اور ان کی عادات و تقالید اور ثقافت میں بہتری واقع ہوئی کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی جان تک کو نثار کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے تاکہ وہ آخرت میں اس کا اجر اللہ سے حاصل کرسکیں۔یہاں تک کہ مہاجرین و انصار میں بھائی بندی کے حکم کے بعد قربانی کا جذبہ اس قدر بڑھا کہ وہ اپنا گھر، مال اور بیویوں تک کو تقسیم کرنے پر تیار ہوگئے کہ اس کے آدھے مال کو آدھے گھر کو اور آدھے کاروبار کو اور ایک بیوی کو طلاق دیکر اپنے مسلمان بھائی کو اس سے شادی کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو نبی آخر الزمانۖ کی کمال تربیت کے نتیجہ میں سخت مزاج عرب کے لوگوں میں طبیعت میں واضح طورپر بہتری و تبدیلی نظر آئی۔