تحریر : بائو اصغر علی معزز قارئین، آج جب کالم لکھنے کیلئے قلم اٹھایا تو تو دیکھتی آنکھوں میں ایک ایسا نقشہ ابھرا جسے دیکھتے ہی دل ازردہ اور آنکھیں نم ہوتے ہی آنسوئوں کی رم جھم شروع ہو گئی، شام برما ،کشمیر و دیگر ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام ہر طرف دھویں کے بادل، تباہ عمارتیں اور زخمیوں کی آہیں آخر ہم بھی اہل دل ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اہلِ دل صورتِ حال کی سنگینی کا اِدراک کرتے ہوئے بھی اسے نظر انداز کر دے، یہ بھی حقیقت ہے کہ شام برما ،کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے مگر یہ پھر بھی کم ہے۔مسلمان اس وقت ایمان کے دوسرے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پہلا درجہ یہ ہے کہ ظلم کو آگے بڑھ کر ہاتھ کی طاقت سے روک دو۔دوسرا درجہ یہ ہے کہ زبان اور قلم کے ذریعے ظلم کے خلاف آواز بلند کرو۔اگر یہ نہیں کر سکتے تو دل میں ظلم کرنے والو ں کو برا ضرور جانو اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ تمام اسلامی حکومتیں ایمان کے تیسرے درجے پر ہیں،مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کہیں سے کوئی جاندار آواز نہیں اْٹھائی جا رہی سوائے ترکی کے ،آخر کیوں ؟مسلمان بچیوں کی عصمت دری۔عزتیں تار تار اور دیگر ممالک میں قبہ خانوں کی زینت بنایا جارہا ہے، شام میں ہزاروں مسلمان بشارت الاسد کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
بشارت الاسد کو روس کی کھلے عام اور امریکہ و یورپ کی مکمل غیر اعلانیہ مدد حاصل ہے۔ اس کے حوصلے بلند ہیں کیونکہ وہ نصیری مذہب کا ماننے والا ہے جبکہ اس کے مقابل شہید ہونے والے عام مسلمان ہیں۔ اسلام دشمنوں کی ہی کوشش ہے کہ نصیریوں کا خاتمہ اور مسلمانوں کی حکومت قائم نہ ہو سکے۔ نصیری جیلوں میں قید مسلمانوں سے بشارت الاسد کی تصویر کو سجدہ کرواتے اور نعوذباللہ بشارت الاسد کے نام کا کلمہ پڑھواتے ہیں،اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ، یہ ہماری اور ہمارے مسلم حکمرانو ں کی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے، یہ سب ہم مسلمانوں کی آپس میں نا اتفاقی کی وجہ سے ہو رہا ہے،مسلمانوں کی آپس میں نا اتفاقی کی بدولت طاغوتی قوتوں نے دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر وا رکھا ہے۔ اور ایسے مظالم روا ں کررکھے جا رہے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے، یہود و ہنود نے ایک گہری سازش کے تحت مسلم امہ کو تقسیم کرنے کا منصوبہ پروان چڑھایا ہے۔
دنیا بھرمیں مسلمان ہی وہ واحد مخلوق ہیں کہ جن کے مارے جانے پر ہر طرف قبرستان جیسی خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے ، ہم مسلمانوں کی کیفیت تو ان برائلر مرغیوں جیسی ہو چکی ہے کہ جو ڈربے میں سے باری باری نکلتی، ذبح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں لیکن بولتی کوئی بھی نہیں۔ نہ کبھی قصاب کے ہاتھ پر چونچ مارتی ہیں۔
اگر سارے مسلمان یونہی خاموش رہیں گے تو لازماً ان مرغیوں کی طرح ذبح ہوتے رہیں گے ،دیکھوں جو ہمارے بہن ،بھائی ،مائیں ،بزرگ ،بیٹے، بٹیاں غیر مسلم قوموں کے ہاتھو ں ظلم ستم کا نشانہ بن رہے ہیں جن کا نا حق خون بہایا جا رہا ہے ،آیئے، دیکھیے، کہیں اس خون کا رنگ ہمارے خون سے مختلف تو نہیں، ان کاخون یہ کہ رہا ہے کہ ،،ہے معتصم باللہ جیسا جرنیل جو ایک بہن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کفرستان کو اسلام کا گلشن بنا دے،،ہے کوئی ابن قاسم جو ہماری ماؤں بہنوں کی عزت تار تار ہونے سے بچائے۔
ان کی کٹی پٹی لاشوں کو کفن کا تحفہ دے سکے،،ہے کوئی ایوبی جیسا فرزند جو ان بیبس ماؤں بہنوں کو کفار کے نرغے سے آزاد کرائے،،ہے کوئی طارق بن زیاد جیسا جرنیل جو کشتیاں جلا کر کود پڑے اور دنیائے کفار کی اینٹ سے اینٹ بجادے۔مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہیں تو پھرہمیں تکلیف محسوس کیوں نہیں ہوتی ؟یہ ہماری مفاد پرستی،تنگ نظری اور خود غرضی نہیں تو اور کیا ہے۔
خدارا اب مسلمانوں غفلت کی نیند سے بیزار ہو جائوں چپ کا روزہ توڑدو اورآگے بڑھ کر اپنا اپنا کردار ادا کروں ،جب ہر مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے قربانی کا جذبہ پیدا کرے گا ،تو کوئی بھی مخالف قوت مسلم قوم کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گی کیو نکہ جو قوت اللہ پاک نے مسلمان کو دی ہے کسی غیر مسلم کو نصیب ہو ہی نہیں سکتی ،اور میری خصوصی گزارش ہے کہ حکومت پاکستان شام میں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سفارتی تعلقات کو استعمال کرکے اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت پاکستان امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز ہے۔ شام کے معاملے کے حل کے لیے بھی پاکستان کو اپنا مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔