تحریر : طارق حسین بٹ شان ڈولنڈ ٹرمپ وہ سب کچھ کرنے کیلئے بے چین ہیں جس کا انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا۔انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے مجوزہ ا قدامات دنیا پرکس طرح اثر انداز ہوں گے بلکہ انھیں فکر ہے تو اپنے وعدوں کے ایفا کی لہذا وہ اپنی دھن میں طے شدہ ڈگر پر چلتے ہوئے کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ دنیا کو نئے امریکی صدر سے جس طرح کے خدشات لاحق تھے وہ دھیرے دھیرے حقیقت کا جامہ پہن رہے ہیں۔ان کے عہدہِ صدارت سنبھالنے کے بعد بے چینی کی ایک کیفیت ہے جسے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔میڈیا کے اس ترقی یافتہ دور میں ایسے لگتا ہے جیسے ہم ا یک بار پھر اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں فردِ واحد پوری دنیا کے فیصلے کرنے میں بالکل آزاد ہوا کرتا تھا۔بیک جنبشِ قلم فیصلوں کی نفسیات ایک دفعہ پھر اپنا وجود منوا رہی ہے۔
میں ڈولنڈ ٹرمپ کے حالیہ آمرانہ اقدام کو شہنشاہیت کی ایک جدید قسم قرار دیتا ہوں کیونکہ ڈولنڈ ٹرمپ نے سینٹ اور کانگریس کی رائے کے بغیر ایک ایسا غیر قانونی فیصلہ صادر کر دیا ہے جس پر ساری دنیا تڑپ اٹھی ہے ۔ اپنا پہلا فیصلہ صادر کرنے میں صدرِ امریکہ نے جس طرح لسانیت،مذہبیت اور نسلی امتیاز کو ہوا دی ہے اسے پوری دنیا نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔دنیا ایک طرف کھڑی ہے اور صدرِ امریکہ اپنے چند حاشیہ برداروں کے ساتھ دوسری طرف کھڑے ہیں۔امریکی اور یورپی عوام نے ان کے اس حکم نامے کے خلاف جس طرح بھرپور احتجاج کیا ہے وہ ہمارے لئے حوصلہ افزا ہے کہ ابھی انسانیت کا ضمیر زندہ ہے اور انسان اب بھی جھوٹ کو جھوٹ اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت رکھتا ہے۔ برطانیہ،فرانس اور جرمنی کے عوام نے جس جراتِ رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ ستا ئش ہے۔میری ذاتی رائے میں ایسا کرنا ان لوگوں کا کام ہوتا ہے جو آزاد سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔غلاموں اور مردہ دلوں سے اس طرح کے رویوں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔یہی وجہ ہے کہ اقبال نے کہا تھا کہ (مردِ حر کی آنکھ ہے فقط بینا)اور شائد یہی وجہ ہے کہ اسے برملا کہنا پڑا تھا کہ دورِ غلامی میں اجتہاد کو روک دینا چائیے کیونکہ غلام کی آنکھ خوف کی کیفیت میں حریت کی روح کو محسوس کرنے سے قاصر ہوجاتی ہے لہذا خوف میں بڑے فیصلوں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
امریکی صدر کے سات ممالک کے خلاف امتیازی سلوک نے دنیا کو ایک طرح کی یکجہتی عطا کی ہے۔جمہور نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ جس طرح ہم نے دنیا کے سب سے طاقتور انسان کے غلط اقدام کو تسلیم نہیں کیا اگر کل کو اسی طرح کا کوئی اقدام کوئی اور آمر بھی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔اس طرح کے فیصلے کی توقع تو سب کرر ہے تھے لیکن اس کا پہلا ڈرون حملہ مسلم ممالک پر ہو گا یہ تصور سے باہر تھا ۔ امریکی عوام اگر چہ اس اقدام سے بلا واسطہ متاثر نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے امریکی صدر کے تعصب انگیز اقدام کے خلاف جس طرح کا احتجاجی انداز اختیار کیا اس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔یورپی اقوام نے بھی اس حکم نامے کے خلا ف اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنے میں کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔احتجاج کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اس حکم نامے سے متاثر نہیں ہیں لیکن پھر بھی انسانیت کی سر بلندی کیلئے وہ سڑکوں پر نگوں پر پڑے ۔لاکھوں انسانوں کا انسانیت کی ایکتا اور اس کی سر بلندی کیلئے سڑکوں پر نکل آنا غیر معمولی واقعہ ہے ۔یہ تنگ نظری کے خلاف اعلی اقدار کی جیت کا عہد نامہ ہے۔میں ہر انسان کو جس نے امریکی صدرکی اشتعال انگیز سوچ کے خلاف اپنا حصہ ڈالا ہے اسے دادو تحسین سے نوازتا ہوں کیونکہ یہی رویہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گہرے تعلق کی بنیاد ہے۔،۔
Muslims
میری لئے سب سے حیرانگی کا باعث مسلم امہ کی خا موشی ہے ۔پوری دنیا میں جہاں امریکی صدر کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مسلم قوم خوا بِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے ۔بڑے بڑے ممالک خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں لہذا اس خانہ جنگی سے ان میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ امریکی صدر کے حکم نامے کے خلاف لب کشائی کریں۔شہنشائیت میں تو اس طرح کے رویوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن وہ ممالک جہاں پر لولی لنگڑی جمہوریر ہے وہاں سے بھی امریکی صدر کی مخالفت میں کوئی آواز نہیں اٹھی ۔سوعدی عرب پر خادم الخرمین ہونے کی حیثیت سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے مفادات کا تحفظ کرے لیکن اس معاملے میں وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہا ہے۔اسلامی دنیا کی واحد ایٹی قوت پاکستان کی پوزیشن بھی انتہائی کمزور ہے۔ میں اسے بھی اس فہرست میں سمجھتا ہوں جو امریکہ کے سامنے دو زانو ہے ۔حکومتِ پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسے اپنے گردو پیش کا ہوش نہیں ہے۔اس وقت عمران خان اس کا دردِ سر ہے کیونکہ وہ پاناما لیکس میں میاں محمد نواز شریف کی کرپشن کے خلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔حکومتِ پاکستان کو عوام سے زیادہ امریکی صدر کی خوشنودی مطلوب ہے لہذا وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہتی جس سے امریکی صدر کے ماتھے پر ہلکی سی شکن بھی ابھرے ۔وہ امریکی صدر کی خوشنودی کی خاطر انسانی برادری سے یکجہتی سے بہت دور کھڑی ہو گئی ہے لیکن ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتی ہے کہ امریکی صدرکا جب موڈ خراب ہو تا ہے تو وہ دوستوں کو نشانِ عبرت بھی بنادیتا ہے لہذا اس کی دوستی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔شاہِ ایران کی دوستی سے بڑی دوستی بھی کوئی اور کیا ہو گی؟شاہِ ایران تو خود کو جنوبی ایشیا میں امریکہ کا کوتوال سمجھتا تھا اور اسے امریکی دوستی پر بڑا ناز تھالیکن جب شاہِ ایران پر برا وقت آیا تو وہ ملک جس نے سب سے پہلے اس سے آنکھیں پھیریں وہ امریکہ ہی تھا۔
امریکی دوستی کی حقیقت جب یہ ہے توپھر انسان کسی فردِ واحد کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے انسانی اقدار اور اس کے وقار کے ساتھ کھڑا کیوں نہیں ہوتا؟امریکہ سات اسلامی ممالک کے خلاف سفری پابندیاں عائد کر رہا ہے لیکن اسلامی دنیا کے کان پرجوں نہیں رینگ رہی۔سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ نے سات ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ اس نے مسلم امہ کے سات ممالک کا انتخاب کیوں کیا اور پھر اس میں بھی یہودیوں اور امریکیوں کو استثنی کیوں دیا؟اگر سفری پابندیوں کی فہرست میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے ممالک بھی شامل ہوتے تو شائد بات اتنی آگے نہ بڑھتی لیکن تعصب میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے ؟کیاصدرِ امریکہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کی بیخ کنی کا عزم رکھتے ہیں اور یہ پہلا حکم نامہ اس کی جانب پہلا قدم ہے؟ سوال یہ نہیں کہ یورپی اقوام اسلام کی ہمدرد ہیں کہ نہیں ہیں ؟ مجھے تسلیم ہے کہ وہ بھی اسلام دشمنی میں ڈولنڈ ٹرمپ سے کسی طرح کم نہیں ہیں لیکن انھوں نے اس طرح کے طرزِ عمل کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا جس میں واضح تعصب کی بو آتی ہو۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدرِ امریکہ کا حکم نامہ انسانیت کی واضح تفریق اور تعصب انگیز فکر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جسے کوئی بھی ذی ہوش شخص ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔یورپی اقوام جمہوری جدو جہد کی ایک طویل داستان رکھتی ہیں۔
جمہوری رویوں کا ادراک اور انسانی آزادی کا نعرہ ان کی خاص پہچان ہے اور وہ اس پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ۔صدرِ امریکہ کا حالیہ اقدام انسانیت کی آزادی اور حریت پر کھلا حملہ ہے لہذا وہ اس کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ان کی آواز اپنا رنگ دکھاتی ہے یا کہ بے اثر ہو جاتی ہے یہ ان کے سوچنے کا مقام نہیں ہے ۔ان کا کام غلط سوچ کے خلاف آواز بلند کرنا ہے اور وہ اسے پوری شدت کے ساتھ بلند کر رہے ہیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی آواز میں آواز ملا کر صدرِ امریکہ کے غلط اقدام پر اپنا اھتضان ریکار کروائیں تا کہ انسانوں کے درمیان مذہب اور نسل کی بنیاد پر تفریق کو شکست دی جا سکے اور اکرمنا بنی آدم کا خواب حقیقت کا جامہ پہن سکے۔،۔