مسلمانوں کی نسل کشی کو روکا جائے

Rohingya

Rohingya

تحریر: محمد عرفان چودھری
آٹھویں صدی عیسوی میں عباسی خاندان کے پانچویں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں کچھ مسلمان تاجر خلیج بنگال کے کنارے پر پہنچے تو اُنہوں نے تجارت کے ساتھ ساتھ وہاں پر مقیم لوگوں کو دین حق سے روشناس کروانا شروع کر دیا اور یوں وہاں کی مقامی آبادی نے اسلام سے متاثر ہو کر دین اسلام کو قبول کر لیا سن 1430 ء میں اراکان کے بادشاہ نے بھی اسلام کو بطور دین قبول کر لیا اور سلطان سلیمان شاہ نے یہاں ایک اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کے بعد مسلمانوں نے اراکان میں تین صدیوں تک حکومت کی مسلم دورِ حکومت کے دوران بے شمار مسجدیں، مدارس اور جامعات قائم کی گئیں اراکان کی ملکی کرنسی پر ” لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ” کندہ ہوتا تھا 1826ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اراکان پر اپنا قبضہ جمایا تو اُنہوں نے ڈیوائد اینڈ رُول کے تحت مقامی راکھینے نسل کے بدھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا 1937 ء میں برما نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی لی28 مارچ1942 ء میں یہاں پہلا فساد ہوا اور مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور چالیس دن کے اندر تقریباََ ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا اور بے تیغ مسلمان بنگال میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے 1947 ء میں جب بر صغیر انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا اُس دوران ایک بار پھر روہنگیا مسلمان مشکلات کا شکار ہو گئے 1949 ء سے اب تک مسلمانوں کے خلاف چودہ بڑے فوجی آپریشن ہو چکے ہیں جن میں مارچ1978 ء کا فوجی آپریشن سب سے بد ترین تھا جس میں درجنوں کی تعداد میں مسلمان بستیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا اور لگ بھگ بیس ہزار مسلمان شہید ہوئے لاکھوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔

مسجدوں و مدرسوں کو آگ لگا دی گئی قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی اس آپریشن کی وجہ سے تین لاکھ مسلمانوں نے بنگلہ دیش جبکہ ہزاروں مسلمانوں نے پاکستان، ملائشیا اور سعودی عرب میں پناہ لی اور مسلمانوں کی خالی کردہ جگہوں پر راکھینے بدھ مت قابض ہوتے چلے گئے مسلمان علاقے کا نام اراکان سے بدل کر راکھینے رکھ دیا گیا آج روہنگیا میں صورتحال یہ ہے کہ لائوڈ سپیکر سے اذان دینے کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے ذبیحہ اور قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے مسلمان سرکاری اجازت نامے کے بغیر نا شادی کر سکتے ہیں اور نا ہی بچے پیدا کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے تک کے لئے اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے1982 ء میں برمی حکومت نے ایک نیا قانون پاس کیا جس کے تحت روہنگی مسلمانوں کو برمی شہریت سے بھی محروم کر دیا گیا برمی حکومت نے یہ فیصلہ اس تناظر میں کیا ہے کہ اراکان کے مسلمان برمی سر زمین کو چھوڑ کر بنگلہ دیش میں ہجرت کر جائیں جبکہ بنگلہ دیش اُنہیں اپنی سر زمین میں برداشت کرنے کو تیار نہیں جس کی تازہ مثال حال ہی میں بنگالی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے بیان سے واضع ہوتی ہے یوں روہنگی مسلمان برمی اور بنگلہ دیشی حکومتوں کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں برما میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات جون 2012 ء میں شروع ہوئے جس کی وجہ سے تقریباََ تیس ہزار مسلمان روہنگیا سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش کی جانب نکل پڑے مگر چند کشتیوں کو دریا کنارے آنے کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے مزید لوگوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا اور کشتیوں کو واپس دریا میں بھیج دیا گیا جو کہ اُن کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا آج برما کی مجموعی پندرہ لاکھ مسلمان آبادی میں سے تین لاکھ بنگلہ دیش میں دو لاکھ پاکستان میں اور چوبیس ہزار ملائشیا میں مہاجرین کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور برمی صدر تھین سین نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ برما میں موجود دس لاکھ مسلمانوں کو دوسرے ملکوں میں بسایا جائے اور برما میں نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سانگ سوچی کی چُپ اپنے آپ میں سوالیہ نشان ہے۔

جبکہ کوئی دوسرا ملک اُن کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ہے پاکستان میں سب سے پہلے جماعت اسلامی نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر آواز بلند کی جبکہ پاکستانی میڈیا نے بھی بڑی دیر تک چُپ سادھے رکھی اور نا ہی کسی موم بتی مافیا کی جانب سے مشعل بردار ریلی کا اہتمام کیا گیا برما میں مسلم نسل کشی کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر نے لگی تو چند مسلم ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ ترکی نے سب سے پہلے خاتون اول امینہ اردوان کی مدعیت میں برما کا دورہ کر کے مسلمانوں کی خبر گیری اور امداد کی ۔
”حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا اے مخاطب تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے سے محبت کا تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو بدن کے باقی اعضاء ایک دوسرے کو پکارتے ہیں تا کہ اس تکلیف کو دور کیا جا سکے جس کی وجہ سے سارا بدن بے حال رہتا ہے (بخاری مسلم)” مگر یہ کیا؟ آج کا مسلمان سب بھول چکا ہے پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مگر کسی کو بھی اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی کہیں فلسطینی مسلمانوں پر جبر کیا جا رہاہے تو کہیں کشمیری بیٹیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے کہیں شام، عراق، لیبیا، ایران، صومالیہ، الجزائر، پاکستان، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک پر حملے کئے جا رہے ہیں مگر بجائے اس کے کہ مسلمان یک جان ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کریں سب ایک دوسرے پر الزامات ٹھوک رہے ہیں کوئی ایران کا دشمن بنا ہوا ہے تو کوئی افغانستان کی جنگ میں غیروں کا ساتھ دے رہا ہے کوئی قطر کے پیچھے لگا ہوا ہے تو کوئی پاکستان پر حملے کی سازش کر رہا ہے۔

یہ سب کیا ہے کیا ہے؟ کیا اسلام ہمیں باہمی بھائی چارے کا درس دیتا ہے یا اپنے ہی بھائی کا خون کرنے کا؟ ہم نے او آئی سی تو بنا ڈالی مگر اُس سے وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے جس مقاصد کے لئے یہ بین الاقوامی اسلامی تنظیم بنائی گئی تھی57 مسلم ممالک کی فوج کا سربراہ بھی بنا دیا گیا ہے مگر آج تک مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی برادری کے سامنے آواز نہیں اُٹھا سکے سب کو اپنی کرسی کی فکر ہے سب کشکول لئے یہودہ و نصاریٰ کے در پر قطار بنائے نظر آتے ہیں خدارا ایک بار سب آپسی دُشمنیاں بھول کر ان ظالم لوگوں کے سامنے سیسہ پلائی کی دیوار بن جائیں تو مجال ہے کہ یہ چوں بھی کر جائیں ہمیں متحد ہونا ہو گا اور متحد ہو کر کفار کا مقابلہ کرنا ہوگا کہیں ایسا نا ہو کہ دنیا کی فکر میں اپنی آخرت گنوا بیٹھیں اور آخر میں اقوام متحدہ سے پُر زور اپیل کی جاتی ہے کہ اگر مسلم ممالک میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے جا رہے ہیں اُن کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اُن پر کسی بھی طرح ظلم و ستم نہیں کیا جا رہا تو پھر مسلمانوں کے حقوق کیوں سلب کئے جا رہے ہیں اس لئے برما میں مسلمانوں پر ہونے والے جبر کو روکا جائے کیونکہ اگر انڈونیشیا میں ایسٹ تیمور اور سوڈان میں ڈارفر جیسے مسئلوں کا حل نکالا جا سکتا ہے تو برما میں اراکان کے مسلم لوگوں کے لئے حل کیوں نہیں نکالا جا سکتا کہیں صرف اس لئے تو مسئلے کا حل نہیں نکالا جا رہاکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کی نسل کشی کا ہے؟

M.Irfan Ch

M.Irfan Ch

تحریر: محمد عرفان چودھری