امت کا نیا صلاح الدین ایوبی

Recep Tayyip Erdogan

Recep Tayyip Erdogan

تحریر : علی عمران شاہین
کون جانتا تھا کہ استنبول کی گلیوں اورسڑکوں پر کل تک شربت بیچنے والا ایک بچہ دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کی آنکھوں کا تارہ بن جائے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے دل کی دھڑکن قرار پائے گا۔ یورپ کے مرد بیمار کو پھر سے جوان و توانا کر کے اسے مسلم دنیا میں ایک عالم کی قیادت و سیادت کیلئے کھڑا کر دے گا۔ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے سرپر دست شفقت رکھے گا تو پھر وہ وقت بھی آئے گا کہ اسرائیل جیسے سانپ کی طرف سے اسے صلاح الدین ایوبی ثانی کہہ کر پکارا جائے گا۔ جی ہاں! ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے جرأت مندانہ اقدامات پر آج کی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا اُمت مسلمہ کی آنکھیں صدیوں بعد چمک اٹھی ہیں کہ انہیں اردوان کی شکل میں ایک ایسا مرد میداں میسر آیا ہے جو آج دل شیطاں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ جس نے امریکہ، یورپ، روس، بھارت اور آسٹریلیا تک پھیلے سارے عالم کفر کے لاڈلے اسرائیلی یہودیوں کو ایسی نتھ ڈالی ہے کہ وہ برسوں سے چلا چلا کر صلح صفائی کیلئے منتیں کر رہے ہیں۔

لیکن بات نہیں بن پا رہی ہے ۔کیامسلم دنیا میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ ایک کے بعد ایک، روس اور یورپ کے ساتھ ٹکر لے گا ۔روس کا جہاز گرا کر اس کی دھمکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھے گا اور پھر سارے یورپ کو کہہ دے گا کہ ”یورپ اپنی راہ لے اور ہم اپنی، ہم اپنے قوانین کی تبدیلی کیلئے یورپ کا حکم نہیں مان سکتے۔ اگر یورپ ہمیں فری ویزہ نہیں دیتا تو نہ دے، ہمیں اس کی پروا نہیں۔” یہ وہی مرد آہن ہے جس نے بنگلہ دیش میں مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر نہ صرف بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا بلکہ ساکت و جامد ساری مسلم دنیا کے سربراہان کی بھی اس خاموشی پر مذمت کر ڈالی۔

یہ وہی رجب طیب اردوان ہیں جنہوں نے چند سال میں دیکھتے ہی دیکھتے مرد بیمار ترکی کو جی ٹونٹی کا رکن بھی بنا دیا اور وہ اسلام دوست ترکوں کا ایسا ہیرو بنا کہ جتنی بار اسے قوم نے منتخب کر کے منصب حکومت پر بٹھایا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ترکی کے موجودہ صدر کی داستان بھی دلچسپ ہے…وہ 1954ء میں بحیرئہ اسود کے ایک شہر ریزہ (rize) میں پیداہوئے۔ وہ کل5بہن بھائی تھے۔ والدنے بہتر پرورش ونگہداشت کے لیے استنبول کاسفرکیااوروہیں رہائش اختیارکی۔ان کاگھرانہ اس قدرغریب تھاکہ رجب طیب نے سڑکو ںپر شربت اور کیک بیچ کرگھر چلانے میں باپ کی مدد شروع کی۔ اس زمانے میں کسی حدتک دینی مدارس پرپابندی کم ہو چکی تھی۔انہوں نے محنت مزدوری کرتے ہوئے استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے مینجمنٹ سائنسزمیں ڈگری لینے سے پہلے کچھ دینی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ان کی ملاقات ملک کے پہلے اسلامی فکر رکھنے والے وزیراعظم نجم الدین اربکان Necmettin Erbakan سے ہوئی تووہ ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔

Istanbul

Istanbul

1980ء میں وہ استنبول ٹرانسپورٹ اتھارٹی میں ملازم ہوئے اورپھرنجم الدین اربکان کی پارٹی میں ہی ترقی کرتے گئے۔جب ان کی پارٹی پرپابندی لگی اور فوج نے حکومت ختم کی تو ان کایہ کیریئر بھی ختم ہوا۔ اردوان 1994ء میں استنبول ٹرانسپورٹ اتھارٹی میں اپنی اعلیٰ کارکردگی کے باعث استنبول کے میئر بن گئے تو اس شہر کو ملک کا سب سے سرسبزوصاف ستھرا شہر بنایا اور ساتھ ہی کھلے شراب خانوں پرپابندی لگادی۔ یہ بات شراب کے رسیا لادینوں کوسخت ناگوار گزری لیکن رجب طیب کے سامنے ان کی چل نہ پائی۔1998ء کاسال ان کے لیے بڑی آزمائش لے کر آیا۔ اسلام سے محبت میں انہوں نے ایک خطاب میں یہ الفاظ اداکیے:”مساجدہماری پناہ گاہیں ہیں۔ گنبدہمارے ہیلمٹ ہیں۔مینارہمارے نیزے ہیں اورایمان دار لوگ ہمارے سپاہی ہیں۔”اس بیان پرانہیں 10ماہ قیدکی سزا ہوئی لیکن 4ماہ بعد رہائی مل گئی۔ تاہم انتخاب میں حصے لینے پر پابندی برقرار رہی۔

جیل سے نکل کر انہوں نے دوستوں سے مل کر موجودہ ”عدل وکمال پارٹی” تشکیل دی جس کی بنیادی طورپرتشکیل فضیلت پارٹی (Virtue Partisi)سے ہوئی تھی۔ اس پارٹی پر 2001ء میں اس وجہ سے پابندی لگی تھی کہ وہ ملک کے لادین سیکولر خیالات کے خلاف اسلامی افکار کی چھاپ رکھتی تھی لیکن2002ء کے انتخابات میں عدل و کمال پارٹی کو حیران کن کامیابی ملی تاہم اب مشکل یہ تھی کہ اردوان اپنے اوپر پابندی عائدہونے کے باعث پارلیمنٹ کاحصہ نہیں بن سکتے تھے۔ اس پر ان کی حکمران پارٹی نے فوری قانون سازی کی اور انہیں ہفتوں میں کامیابی دلوا کر ملک کاوزیراعظم بنادیا۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے مشن پرکام کاآغازکیا۔

ان سے پہلے جب عبداللہ گل وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت بھی قانون یہ تھا کہ کوئی خاتون سرڈھانپ کر ترک پارلیمنٹ میں نہیں آ سکتی تھی۔ عبداللہ گل کی اہلیہ کوبطورِ خاتون اول پارلیمنٹ میںآنے کی دعوت ملی توانہو ں نے سکارف اتارکرآنے سے انکار کردیا۔انہوں نے کہا کہ وہ ایسی پارلیمنٹ میں جاناہی نہیں چاہتیں کہ جہاں انہیں سرننگا کرنا پڑے۔ اس پرپارلیمنٹ نے فوری قانون منظورکیا اور یوں پارلیمنٹ میں خواتین کے سرڈھانپنے پرعائدپابندی ختم ہوئی اور پھر خاتون اول خیرالنساء گل سکارف پہن کراورجسم ڈھانپ کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئیں۔ یہ ترکی میں ایک انقلابی اقدام تھا جس نے لادینوں کو بھونچکا کر رکھ دیاتھا۔ 14 مارچ2003ء کو عبداللہ گل وزارت عظمیٰ سے ہٹے اور رجب طیب اردوان وزیراعظم بنے تو انہوں نے ملک کے لادین آئین کو بدلنااور اسلام پرعائدپابندیاں تیزی سے ختم کرناشروع کردیں۔

Burqa Banned

Burqa Banned

17نومبر2006ء کو بی بی سی ورلڈ نے خواتین کے سکارف پہننے پرعائد پابندی کے خاتمے پرلکھاکہ ملک کی63فیصد خواتین اب مکمل سرڈھانپنے کے لیے سکارف لیتی ہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا کہ لادین لوگ اس تبدیلی کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ یعنی لادین تواول دن سے ہی پریشان تھے ‘اس لیے ان کی اس مخالفت سے خیر برآمد ہو رہی ہے۔ بی بی سی ورلڈ نے 24اکتوبر2012ء کو سوال اٹھادیاکہ Is Turkey’s secular system in danger? ”کیاترکی کالادین نظام خطرے میں ہے؟” بی بی سی نے لکھا کہ موجودہ وزیراعظم پرانے نظریے کہ ”ریاست کو دین سے الگ رکھو اور دین کا ریاست سے کوئی سروکار نہیں بلکہ انسانی زندگی میں ہی اسلام کاکوئی تعلق نہیں ہوناچاہئے’ کوبدل دیاہے۔اب وزیراعظم کہتے ہیںکہ قوم ایمان دار اور نیک ہونی چاہیے۔ پھر انہوں نے قانون بنادیاکہ 11سال کے بچے کوامام و خطیب جسے ترک زبان میں Hatip کہا جاتاہے’ بنانے کے لیے مدرسے میں ڈالاجاسکتاہے بلکہ وہ توکہتے ہیں کہ ترکی مسلم ملک ہے اورہم اسے مسلم دنیا میں مثال بناناچاہتے ہیں۔

اس کے کچھ عرصے پہلے انہوں نے مساجد کوہروقت کھلا رکھنے کاحکم دیا۔طویل عرصہ سے عجائب گھربنے استنبول کی عظیم عمارت آیاصوفیہ کوپھرسے مسجدکی حیثیت دی۔ مساجد اور سکولوں کے آس پا س100 میٹرکے علاقے سے شراب خانے ہٹانے کاحکم دیا۔سپیکر پر اذان کی اجازت دی۔ رات10بجے کے بعد شراب کی فروخت پر پابندی عائدکی توساتھ ہی سرعام فروخت بھی روک دی۔3سال پہلے طیب اردوان ایک ایسا قانون بنانے کی تیاری میں تھے جس کے تحت خواتین کے لیے کم ازکم 3بچے پیداکرنا لازمی قرار دیاجائے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی آبادی میں ہرصورت اضافہ ہو۔ اس وقت انسانوں کی زبردست قلت سے دوچاریورپ کو انسانی قوت فراہم کرنے والاملک صرف ترکی ہی ہے۔

یوں ترکی غیر محسوس انداز میں عملاً یورپ پر قابض ہو رہا ہے کیونکہ یورپ کے تقریباً سبھی ملکوں میں بچوں کی پیدائش بہت کم رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ بے حیائی ‘اسقاط اورخاندانی منصوبہ بندی کے عمل کو اپناناتھااور اسی کا فائدہ اب ترکی اٹھارہا ہے۔رجب طیب اردوان نے حیران کن طورپر 12 سال میں ترکی کانقشہ ہی بدل دیاہے۔ معاشی طورپر انہوں نے پہلے10 سال میں اس قدرترقی کی کہ اب وہ دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ فی کس آمدن15ہزار ڈالر تک پہنچ رہی ہے۔بے روزگاری کی شرح جو یورپ میں 30سے50 فیصد تک ہے’ترکی میں 11فیصد رہ گئی ہے۔ملک میں توانائی کاکوئی بحران نہیںتو ترک نظام حکومت ایک مثال بن کر سامنے آیاہے۔ یہی ترکی دنیابھرکے مظلوم مسلمانوں کی دن رات مددکررہاہے۔

Earthquake

Earthquake

پاکستان کے زلزلہ زدگان و سیلاب زدگان کی زبردست امداد سب کے سامنے ہے۔ فلسطینی مہاجرین کاسب سے بڑا امداد کنندہ ترکی ہے۔ آج کے شامی مہاجرین کو سب سے زیادہ امداد اور پناہ ترکی فراہم کر رہاہے۔ برماکے مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کرنے والا بھی ترکی ہی ہے جس کی خاتون اول اپنے بیٹے کے ہمراہ اراکان کادورہ بھی کرچکی ہے۔ آزادکردستان کی تحریک جس نے مصطفی کمال پاشاکے خوفناک مظالم سے جنم لیاتھا’ترکی کے لیے مسلسل درد سرتھی۔

لیکن اردوان نے ایسی پالیسی کاآغاز کیا کہ وہ تحریک یکطرفہ طورپر حکومت کے ساتھ مکمل صلح صفائی کرکے ہتھیارڈال چکی تھی۔یہ ترک حکومت کی بہت بڑی کامیابی تھی جسے اب امریکہ نے داعش جیسی بیماری پیدا کر کے ایک بار پھر میدان میں لا کھڑا کیا ہے۔

ترکی آزمائش کا 80سالہ دور گزار کر اب دوبارہ ایک نئی آزمائش سے ضرور دوچا رہے لیکن جیسے اللہ نے اپنے نیک بندوں کی مدد کے وعدے کئے ہیں ،انہیں دیکھ کریقین آجاتا ہے کہ ضرور اُمت کی منجدھار میں پھنسی کشتی اب کنارے لگنے والی ہے۔(ان شاء اللہ)

Imran Shaheen

Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین
0321-4646375