تحریر: فیضان رضا سید منگول سلطنت کا سکہ قائم کرنے کے بعد چنگیز خان نے دیکھا کہ اسکی سلطنت اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ اس کی حدیں اب مسلمان سلطان حکمران علاءالدین خوارزم شاہ کی عظیم سلطنت سے جاملی ہیں۔ اپنی قوم اور سلطنت کی ترقی کے لئے اس نے سوچا کہ ان دونوں سلطنتوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی رابطوں کا قیام عمل میں آنا چاہیے چنانچہ اس نے سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے یہاں قیمتی تحائف کے ساتھ ایک قاصد بھیجا جس سے سلطان علاءالدین خوارزم شاہ بہت خوش ہوا اور جواب میں چنگیز خان کا شکریہ ادا کیا اور اس کے لئے قیمتی تحائف روانہ کیئے۔ سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے تحائف لے کے جب یہ قاصد واپس پہنچا تو چنگیز خان بھی بہت خوش ہوا اورحکم دیا کہ دونوں سلطنتوں کے ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے مزید اقدامات ہونا چاہیں اور تجارتی قافلوں کا دونوں سلطنتوں میں آنا جانا ہونا چاہیئے۔چنانچہ چنگیز خان کے حکم پر چار سو افراد پر مشتمل چارسو تاجروں کا ایک کارواں تیار کیا گیا جو قیمتی سامان لیکر روانہ ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ منگول اپنا تجارتی سامان سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں فروخت کریں ۔۔۔!!
منگولوں کا یہ تجارتی قافلہ جب سلطان کی سلطنت میں اترا ر کے مقام پر پہنچا اور وہاں قیام پذیر ہوا تو وہاں کا حاکم اینال ،جو سلطان کا ماموں تھا ، ان کے پاس قیمتی سامان دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی۔ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو گرفتار کرلیا اور بعد ازں سلطان کی طرف سےبااختیار ہونے پر اس قافلہ کے تمام تاجروں کو قتل کرواکر انکے مال پر قبضہ کرلیا۔ اتفاق سے ان کا ایک آدمی جو قتل ہونے سے بچ گیا تھا اس نے چنگیز خان کے پاس پہنچ کر اس کو ساری صورت حال سے آگاہ کردیا۔ ۔ چنگیز خان کوئی سخت قدم اٹھانے سے پہلے اس معاملے میں سوچ سمجھ سے کام لینا چاہتا تھالہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے اس معاملے کو سلطان علاﺅالدین خوار زمشاہ کے سامنے پیشکر ناچاہیے اوراحتجاج کرناچاہیے۔ اس نے ایک قاصد سلطان کی طرف روانہ کیا اور مطالبہ کیا کہ آپ کے علاقے میں اترار کے حاکم نے ہمارے چارسو تاجروں کو قتل کرکے ان کے تجارتی سامان پر قبضہ کرلیا ہے ، لہٰذا اترار کے حاکم اینال کو ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ ہم اسے مناسب سزا دیں اور ہمارے تاجروں کا سامان ہمیں واپس کیا جائے۔چنگیز خان کے قاصد نے جب یہ مطالبہ سلطان تک پہنچایا تو سلطان یہ پیغام سن کربہت زیادہ برہم ہوا اور حکم دیا کہ یہ پیغام ناقابل عمل اور گستاخانہ ہے ، اسے قتل کردیا جائے، لہٰذا سلطان کے حکم پر اس قاصدکو قتل کردیا گیا۔۔۔۔۔۔یہ ہی وہ ناانصافی اور مجرم کی پشت پناہی تھی جس کی بنا پر مسلمانوں کو چنگیز خان کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا اوربغداد کی گلیوں میں انسانی سروں کے مینار بنادئیے گئے ، پندرہ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔۔۔!!
Justice
چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی سے ممکنہ شکست سے بچنے کے لیے جب کابینہ کو مشورے کے لیے بلایا تو تمام مشوروں ، جنگی سکیموں اور پلاننگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے چرچل نے ایک عجیب سوال کیا کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ جب جائز ہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے اس پر چرچل نے کہا تو پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ عدل و انصاف کی فراہمی کو کسی بھی قوم میں عروج وترقی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اس لیے مثالی سمجھا جاتا ہے کہ کیونکہ ان کے دورِ حکومت میں انصاف کی فراہمی یقینی تھی۔۔!!! پاکستانی عدالتوں کی “انصاف پسندی” کس سے ڈھکی چھپی ہے ۔۔!!ہمارا ملک دنیا کا وہ منفرد ملک ہے جہاں مجرم پناہ گاہ کے لیے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔۔!!
یہ ہی عدالتیں ہیں ناں جنہوں نے ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دینی تھی۔۔۔ان ہی عدالتوں نے تو شاہ زیب قتل کیس کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ زین کا قاتل مصطفیٰ کانجو کا عدالتیں کیا بگاڑ سکی ہیں؟۔۔یوسف رضاگیلانی فیملی کے پروٹوکول کی بھینٹ چڑھنے والا طاہر ملک آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔۔۔قصور میں 200 سےزیادہ بچوں سے بدفعلی کرنے والا ن لیگی ایم پی اے آج بھی ہمارے عدالتی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔12 مئی کے واقعے کو بھی دس سال ہونے کو آئے ہیں مگرمجال ہے کہ 40 سے زیادہ لاشوں کا کوئی مجرم پھانسی پر چڑھا ہو۔۔۔بلدیہ فیکٹری میں سینکڑوں ملازمین کو بے دردی سے زندہ جلادیا گیا تھا، یہ ستمبر 2012 کا واقعہ ہےجو اب تک انصاف کا متلاشی ہے۔۔۔ان ہی عدالتوں نے ماڈل ٹاؤن واقعہ پرفیصلہ دینا تھا لیکن خود کسی طوائف کی طرح قاتلوں کے ہاتھوں فروخت ہوگئیں۔۔کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔لیکن ان ہی عدالتوں سے آج تک ایک بھی۔۔۔ایک بھی۔۔۔ایک بھی۔۔میگا کرپشن کیس میں کوئی بڑی سزا نہیں دی گئی، جتنی سزائیں دی گئیں وہ سب سیاسی بنیادوں پر تھیں جنہیں ان ہی عدالتوں سے کالعدم بھی قرار دیا گیا۔۔
Injustice
یہ ہی عدالتیں ہیں جو دو ملزموں کو اس وقت بے گناہ قرار دیتی ہیں جب وہ پھانسی پر چڑھ چکے ہوتے ہیں۔۔ یہ عدالتیں اس شخص کی رہائی کا فیصلہ سناتی ہیں جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے انصاف کی امید پر دم توڑ چکا ہوتا ہے۔ان ہی عدالتوں میں اگر کوئی غریب انصاف کی امید لے کر آجائے تو پیشیوں میں اس کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں لیکن وکیلوں اور ججوں کا پیٹ نہیں بھر پاتا اور غاصب کی نسلیں تک عیاشی کی زندگی بسر کرتی ہیں۔اور سب سے اہم!! ہماری عدالتیں ان دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کو بھی سزائیں نہیں سناسکی تھیں جنہوں نے اس ملک کے ہزاروں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا تھا اور مجبوراً ہماری سیکیورٹی اداروں کو ملٹری کورٹس کا سہارا لینا پڑا۔۔ایان علی رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود باعزت بری ہے بلکہ عدالتوں کے باہر “ریمپس” پر کیٹ واک کرتی پائی جاتی ہیں جبکہ ان کو ثبوتوں کے ساتھ پکڑنے والے کسٹم آفیسر قتل ہوجاتے ہیں اور عدالتوں کو قاتلوں کا نہ کوئی کھرا ملتا ہے نہ ثبوت۔۔
اصغر خان کیس ہو یا حدیبیہ شوگر مل کیس، نجکاری کا عمل ہو یا ریکوڈک کیس، خفیہ میٹنگ کی خبر لیک ہونے کی بات ہو یا میموگیٹ سکینڈل، چائنہ کٹنگ ہو یا رانا ثناءاللہ سمیت دوسرے سیاست دانوں کا زمین و جائیداد پر ناجائز قبضہ، اس ملک کی عدالتیں ہمیشہ ملزموں اور مجرموں کے لیے شجر سایہ دار ہی رہی ہیں۔۔!! اور سب سے آخر میں۔۔۔۔ آپ عدالتوں کے نظام انصاف پر انگلی اٹھائیں گے تو فوراً سے پہلے آپ کو عدالتی تقدس کے مجروح ہونے پر مجرم قرار دیا جائے گا اور contempt of court کے تحت تیزی سے پیشیاں بھگتا کر سزا سنادی جائے گی۔!!!!