تحریر: ڈاکٹر احسن باری ہمارے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارتی بنیاء حکمران ملکی سرحدوں پرحملہ آور ہیں اور روز بروز اس کی سرحدی خلاف ورزیاں شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی جارہی ہیں اور ہم اندرونی دہشت گردوں سے تو کیا نمٹیں گے ہم دہشت گردی کی تعریف پر ہی متفق نہ ہوپاسکے ہیںاوران کے طریقہ کار پر حکمرانوںنے خود ایسا ابہام پیدا کرڈالا ہے کہ الامان و الحفیظ ۔ دوسری طرف نریندر مودی کا مسلمانوں کے قتل عام اور کھلی ذبح گری پر یہ کہنا کہ گاڑی کے آگے آپ کے کتے کا پلا آکر کچلا جائے گا تو افسوس تو ہوگا، مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اور ہمارے کاروباری وزیر اعظم اس کی حلف برداری کی تقریب میں چلے گئے تھے تاکہ آئندہ ذاتی کاروبار تو ذاتی تعلقات کی بناء پر جاری رہ سکیں ۔ تاریخ میں کبھی صنعتکار اور کاروباری حضرات سربراہ مملکت نہیں رہے ۔ہمارے ووٹروں نے تو یہ گناہ بے لذت بھی کرڈالا تھا اور انہوں نے خود ٹھپہ جمہوریت کے ذریعے جعلی مینڈیٹ حاصل کرکے قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
ہمارے مشرقی بارڈر پر ہمارے ہی مشرقی بازو کی طرح 1971ء جیسے حالات پیدا ہوچکے ہیں ۔ بلوچستان میں بھارتی سرمایہ کے ذریعے انکے افراد کی وارداتیں انتہاؤں کو چھور ہی ہیں اور ہم آخری مغل فرمانروا رنگیلا بادشاہ کی طرح جو پنگھوڑوں میں پڑا آخری وقت تک یہی کہتا رہا کہ”دے سیراں چوٹاہ” (سیراں نامی باندی کو کہہ رہا تھا کہ پنگھوڑے کو مزید ہلاؤ) کہ ہنوز دلی دور است ۔ فوجیں داخل ہوئیں اور شہزادگان جو کبھی زمین پر چلے تک نہ تھے کچل ڈالے گئے ۔ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران زرداری اور شریف برادران ایک ہی چہرے کے دوگال ہیں ۔خون چوسنے والی جونکوں کی طرح سرکاری خزانے کو چمٹے ہوئے لوٹ کا مال یا پھر شیر مادر سمجھ کر پئے جارہے ہیں ۔یہ کرپشن کنگز ہیں۔
Courts
ان کی صنعتی ایمپائروں نے ان گنت نئے بچے جننے شروع کررکھے ہیں۔ جاتی امرائی محلات دنیا کا انوکھا عجوبہ بن رہے ہیں ۔ حفاظتی دیواریں تعمیر کرنے کے پلان مرتب ہورہے ہیں ۔جگہ جگہ بلاول ہاؤسز تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مال کہاں سے آرہا ہے؟ کیا ان کی سندھی زمینیں سونا چاندی اور ہیرے جواہرات اگلتی ہیں ؟ مشرف کے دور میں تو گجراتی چوہدریوں نے بھی فیکٹریوں کے انبار لگا ڈالے تھے ۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان ، راجہ پرویز اشرف ، مخدوم امین فہیم اور مخدوم شہاب الدین سمیت پیپلز پارٹی کے وزرائے اعظم اور مرکزی لیڈروں پر بڑے پیمانے پر کرپشن کے مقدمے قائم ہوئے۔
ایفی ڈرین ، حج کرپشن، کرائے کے بجلی گھر، ریلوے انجن وغیرہ، میمو سکینڈل پیش آیا۔ حسین حقانی اپنا موبائل تک سپریم کورٹ میں پیش کئے بغیرفرار ہو گیا۔ زرداری کے دورمیں بیرونی قرضے ساٹھ ارب ڈالر سے 140ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ درمیانی مال ہڑپ کرکے سرے محل بنے اور اربوں ڈالر بیرون ملک جمع ہوتے رہے ، مقدمات کدھر گئے؟ اب قرضے پھر تقریباً دوگنا ہوچکے ہیں۔ خزانہ مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا جارہا ہے ۔ ایسے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں جن میں کک بیکس زیادہ ہوں دوسری طرف عورتیں بچوں کو بھوکوں مرتے دیکھ کر خود کشیاں کررہی ہیں اور والد تک پانچ بچوں کو گلہ گھونٹ کر ہلاک کررہے ہیں ۔ روزانہ مرنے سے تو ایک ہی دفعہ کی موت اچھی ۔ان کی موت اور اوپن قتل کی وجوہات کی بنا پر حکمرانوں کی گردنوں میں رسا کیوں نہیں ڈالا جاتا۔ ان لٹیروں کے خلاف تو جھٹ پٹ کی فٹا فٹ عدالتیں قائم ہونی چاہئیں ۔ اس کیلئے تو شائد کسی آئینی ترمیم کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ْ اگرٹھپہ جمہوریت والی اسمبلی میں ایسی قرارداد آئی بھی تو سیکنڈوں میں بالاتفاق رائے پاس ہوجانے کا قوی امکان ہے۔جن کی وجہ سے غریب بھوکوں مررہے ہیں۔
ان خونی دہشت گردوں کو تختہ دار پر اولین فرصت میں کھینچ ڈالا جائے تو دیگر بھوکے دہشت گرد ویسے ہی بندے کے پتر بن جائیں گے اور ملٹری عدالتوں کی شائد ضرورت ہی چند دنوں کیلئے پڑے۔ ویسے اگر شرعی قوانین نافذ کرکے عدالتیں قائم کی جائیں تو زیادہ بہتر ہوگااس سے اللہ بھی راضی ہوتے اور اس کے رسول ۖ بھی اور خدا کی رحمتیں بھی برسیں گی ۔ جب ایسا تیاپانچہ ہورہا ہو تو ان کے ساتھ ہی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر مشرف کا بھی کانٹانکال دیا جانا چاہئے جس نے صدارتی محل کو ناچ گھر بنائے رکھا جہاں خمر و کباب کی محفلیں جمی رہتی تھیں اور اس نے سامراج کو ہمسایہ ملک پر اڑتیس ہزار بمبار حملوں کی اجازت اپنے ہوائی اڈوں سے ہی نہیں دی بلکہ اپنے ملک پر بھی ڈرون حملوں کا ایسا اجازت نامہ جاری کیا جو آج بھی جاری و ساری ہے ۔ پھر عمران نامی شخص نے صرف پختونوں کے ووٹوں کی مزید ٹھگی مارنے کیلئے دھرنے بازی اور نیٹو سپلائی معطل کئے رکھی اور اب پشاور میں معصوم بچوں کے قتل بہیمانہ پر ان کے عزیزو اقارب ابھی تک کوما میں ہیں راتوں کو سونہیں سکتے ، ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں چالیسواں بھی نہیں ہوسکا راتیں مزید سیاہ ہوچکی ہیں مگر ادھر شادیانے بجاڈالے ہیں دوسری طرف گیس اور بجلی کی بندش سے فیکٹریاں بند ہورہی ہیں مزدور بدحال ہیں اور حکمرانوں کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں ان حالات میں اللہ اکبر تحریک ہی اپنے منشور پر عمل کرکے ان تمام مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جو بجلی، گیس، تعلیم ، علاج ، انصاف اور صاف پانی بالکل مفت مہیا کرنے اور کھانے پینے کی اشیاء 1/5ہمہ قسم تیل 1/3 قیمت پر عالم اسلام سے بغیر سودی قرض حسنہ لے کر بذریعہ سبسڈی دینے کی پابند ہے۔
خدا کے فضل سے بے روزگاری کا مکمل خاتمہ ہوگا غربت اور مہنگائی کم ترین سطح پرآجائیں گی ، مزدور اور تمام محنت کشوں کی تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ مقرر ہوگی اور ملوں کے منافع میں سے 10فیصد حصہ علیحدہ ملے گا ۔ ملک بھر میں غریبوں کیلئے سفر اور باربرداری مفت ہوگی اور عام لوگ 1/3قیمت ادا کرکے یہ سہولت حاصل کرسکیں گے۔ چو نکہ باقی سارے مہرے اپنا اپنا کھیل کھیل چکے ہیں ۔امید قوی ہے کہ آئندہ ووٹر تحریک کے انتخابی نشان گائے پر مہریں لگاکر ٹھپہ مارکہ پولنگ کی پیداوار بددیانت حکمرانوں کی ذاتی جعلی جمہوری لونڈی سے نجات پانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اس طرح انگریزی سامراج کے ٹوڈیوں، یہود و نصاریٰ اور صیہونیوں کے پالتو ایجنٹوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ بدطینت رسہ گیروں ، ظالم جاگیرداروں، بدقماش و اوباش وڈیروں، آدم خو ر بھتہ مافیا، بوری بند لاشوں کو بطور تحفہ بھجوانے کے موجدوں نیز کٹھ ملائیت کے علمبرداروں ، ڈیڑھ مربعہ زمین پر مشتمل بنی گالائی اور سینکڑوں ایکڑ وں والے جاتی امرائی محلات اور صنعتی ایمپائروں کے مالکوں کی امیدیں خاک میں مل جائیں گی ۔ سیاہ رات کی کوکھ سے صبح ضرور جنم لے گی اور ملک جلد اسلامی فلاحی مملکت بن کرابھرے گا۔