اسلام امن کا داعی مذہب ہے ۔ اسلام کی فطرت میں سلامتی اور صلح کا جوہر موجود ہے۔ دنیا سے نابرابری، خوف و دہشت کے خاتمے اور احترام آدمیت کے لئے رب العالمین نے اسلام کو پسند فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”انسانیت کے ناطے ہر فرد کے دوسرے پر کچھ حقوق ہیں اور ہر فرد ایک دوسرے کے لیے قابل احترام اور عزت کے لائق ہے۔ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اور تمام مخلوق میں خدا کا سب سے زیادہ وہ پیارا ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے۔”صحیح مسلم میں ہے: ”بلاوجہ کسی انسان کو تکلیف نہ دی جائے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا کسی شرعی جواز کے بغیر کسی سے سخت کلامی، ترش روئی اختیار نہیں کی جائے گی۔ شرعی سزاؤں یا جنگوں کے جواز کے سوا کسی حال میں کسی دوسرے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی۔ انسانوں سے رحم کا برتاؤ کرنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ اسلام تشدد کو پسند نہیں کرتا ”مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام دنیا کا واحد آفاقی مذہب ہے جس نے امن و سلامتی کے پیغام کو عام کیا اور آج اسلام مسلم دشمن طاقتیں پوری قوت سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں۔ایک دور تھا پوری دنیا میں مسلمانوں کا ڈنکا بجتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم جیسے نڈر جانباز سپاہی مسلم اُمہ کا اثاثہ تھے۔
ایک عورت کی فریاد سن کر محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کر لیا اور ہندوستان میں شیرشاہ سوری نے سومنات کا مندر توڑ کر ہندو برہمن کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ برصغیر میں ایک ہزار سال تک مسلم حکمران برسراقتدار رہے مگر آج یہ عالم ہے کہ مسلم خون ارزاں ہو چکا ہے۔ بوسنیا سے لے کر کشمیر، فلسطین سے برما تک مسلمانوں کو گاجر مولی کیطرح کاٹا جا رہا ہے۔ عزت مآب مسلمان خواتین کی عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں۔ معصوم بچوں کو پیروں تلے کچلا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ شام کے حالات ملاحظہ کیجئے شامی بچوں کی بے گور وکفن لاشیں عالمی بے حس ضمیر پر نوح کناں ہیں۔ برما کے مظلوم مسلمانوں کے جلے کٹے ہوئے برہنہ جسم بے بسی و لاچار پر ماتم کرتے ہیں اور سمندر میں بہتری ہوئی ڈیڑھ سالہ ایلان کی لاش حقوق انسانی کے اداروں سے سوال کرتی ہے کہ مجھے اس لئے بے یارومدد گار ان بے رحم موجوں کے سپرد کیا گیا کہ میں ایک مسلمان کی اولاد ہوں۔ کہاں ہے وہ مغرب جہاں ایک کتا بھی مر جائے تو طوفان برپا ہو جاتا ہے۔
حقوق انسانیت کا درس یاد دلایا جاتا ہے۔ کیا مسلمان ہونا جرم بن گیا ہے ؟اور مجھے اسی جرم کی پاداش میں یہ سزا ملی کہ میرے والدین کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور مجھے اپنے ساتھ نہ لے جا سکے۔ کیاہم مسلمان بچوں کے لئے اس دنیا میں رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ان درندوں کا زور چلے تو وہ پوری دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دے مگر وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد” مسلم اُمہ پر پہاڑ جتنی بھی مصیبتیں آجائے وہ پھر اسلام کی سربلندی اور کلمہ حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ابلیس کے آقا ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔جبکہ مغربی طاقتوں کی ایما پر بین الاقوامی میڈیا کی اسلام اور مسلمانوں کا امیج خراب کرنے کی مذموم سازشیں مسلسل جاری ہیں۔ مسلمانوں کے دینی شعائر کو طنز و تعزیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہیں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو خوفزدہ اور ہراساں کیا جارہا ہے۔ گویا دہشت گردی مسلمانوں کی ہی نشانی بن چکی ہے اور دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے بلا تخصیص و تفتیش اسے فی الفور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔
اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے وجود کا خاتمہ اور دیگر قوموں کے مابین اسلام فوبیا پیدا کرنا ہی صہیونی و طاغوتی طاقتوں کا اصل مقصد ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر انہیں ذلیل و خوار کرنا نیز قوم مسلم کے لئے انتہائی سنگین حالات پیدا کرنا اسی پس منظر کا حصہ ہے۔نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں پچاس سے زائد نہتے نمازیوں پر وحشیانہ طریقے سے گولیاں برسائیں گئیں کیا یہ مہذب دنیا کا شیوہ ہے؟ اور اس پر ان کی عجیب منطق ہے اگر کہیں کوئی مسلمان کرے تو اسے فوراً دہشت گرد قرار دیدیا جاتا ہے اور اگر کوئی غیر مسلم سفاکیت کا مظاہرہ کرے تو اسے ذہنی مریض قرار دیکر معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں مسلمانوں کو جان سے مارنے والے کی درندگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے نفسیاتی بیماری سے جوڑ دیا گیا ہے اگر وہ مجرم مسلمان ہوتا تو اس کی سزا پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو ملتی۔ یورپ میں آباد مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو جاتا۔ مسلم داڑھی، ٹوپی اور مسلمان عورت کا برقعہ زیر عتاب آتا۔ آج بھی یورپ میں مسلمان عورت کا حجاب ان کی نظروں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے انہیں برقعے اوڑھنے پر مسلمان عورت دہشت گرد نظر آتی ہے یا دہشت گردوں کی سہولت کار ۔ اگرچہ دْنیا بھر میں اِس واقعے کی مذمت کی جارہی ہے۔اگر واردات کسی مسلمان نے کی ہوتی تو دْنیا بھر میں میڈیا کی کوریج کا انداز زیادہ جارحانہ ہوتا۔اگرچہ برطانیہ کے اخبار ٹیلی گراف نے اِس واقعے کی خبر پر ”مانسٹر” (درندہ) کی ایک لفظی سرخی جمائی ہے،لیکن دْنیا کے معروف ترین سوشل میڈیا نیٹ ورک نے محتاط رویہ اپنایا اور واقعے کو دہشت گردی سے زیادہ قتلِ عام کی واردات کا نام دیا ہے۔
عالمی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا عمومی رویہ یہی رہاہے کہ اگر دہشت گردی کے کسی واقعے میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو اس کے بارے میں طرح طرح کی تفصیلات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائی جاتی ہیں،اس کے پردے میں اسلام پر بھی رقیق حملوں سے گریز نہیں کیا جاتا، لیکن دہشت گردی کے واقعے میں اگر کوئی غیر مسلم یا سفید فام ملوث ہو تو عام طور پر اس کی ذہنی حالت پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ حالات کا ستایا ہوا تھا،جس سے تنگ آ کر یا ردعمل میں اْس نے ایسی واردات کر دی، ایسے کسی دہشت گرد کو ”مسلح حملہ آور” اور واردات کو قتلِ عام کی واردات کہا جاتا ہے ۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی جرات کو سلام ۔جنہوں نے نے تسلیم کیا ہے کہ یہ منظم دہشت گردی ہے۔ اِس واقعہ سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حملہ آور مسلمان ہو یا غیر مسلم، نشانہ زیادہ تر مسلمان ہی بن رہے ہیںیہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں یاپھر وہ جو مسجدوں پر حملے کر رہے ہیں۔ نہتے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں وہ انسانیت کے کس درجے پر فائز ہیں؟ کرائسٹ چرچ کا خونی واقعہ حقوق انسانی کا واویلا مچانے والی یورپی اقوام کے دامن پر سیاہ دھبہ ہے۔ افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو گولی لگتی ہے تو مغربی آقاؤں کے دلوں میں ٹھیس کیوں نہیں اٹھتی۔ کرائسٹ چرچ میں پچاس مسلمانوں کی شہادت پر عالمی اداروں پر سکوت طاری ہے کیوں؟ مرنے والے مسلمان تھے اس لیے ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ کیا مسلمان ان کے قائم کردہ انسانیت کے معیار پر پورا نہیں اُترتے ؟۔ برما میں امن پسند بودھ دہشت گردوں کی بربریت پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی لاکھوں بھوکے ننگے بدحال مسلمانوں کو سمندر کی موجوں کی نذر کر دیا گیا۔ انہیں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا گیا اور جو بچ گئے وہ زمین پر آشیانہ کی تلاش میں دربدر ہیں کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں۔ جمہوریت کی علمبردار میانمار کی خاتون رہنما سون آنگ سوچی مسلمانوں کی قاتل اسے خون مسلم کی کوئی پرواہ نہیں اُس سفاک کا یہ کہنا ہے کہ میانمار میں ہو رہے ظلم و ستم سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہیں اور تو اور بودھ دہشت گر ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے مسلمانوں کے خون کی بو سونگھتے ہوئے چلاتے ہیں اور کوئی ان درندوں کو لگام دینے والا نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وہ دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں چپہ چپہ فوج کے قبضے میں ہے جگہ جگہ پر ناکے لگے ہوئے ہیں سات لاکھ سے زیادہ بھارتی افواج نے کشمیریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی کشمیری نوجوان کا جنازہ نہ اٹھتا ہو اور کسی مسلمان عورت کو بے آبرو نہ کیا جاتا ہو۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سلسلے میں اقوام متحدہ بھی بری طرح ناکام ہوا ہے اور وہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکا کہ دہشت گرد کی تعریف کیا ہے۔ اگر اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق عمل کرتا تو آج دنیا امن کا گہوارہ بن چکی ہوتی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا جھکاو ہمیشہ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب ہی رہا، اس نے اسلام فوبیا کی بنیاد پر نفرت کو روکنے کیلئے کوئی قابل ذکر خدمات انجام نہیں دیں۔ عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس نے امریکہ کے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ اس نے پلوں کی بجائے دیواریں تعمیر کرکے عیسائیت کو نقصان پہنچایا ہے۔
عالمی میڈیا پر چونکہ اسرائیل کا کنٹرول ہے، اس لئے عالمی میڈیا بھی اسلام فوبیا کی تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ترکی کے صدر اردوان نے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک اسلام فوبیا کی لہر کو روکنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کو انتہاپسندی اور نفرت کو روکنے کیلئے خصوصی قوانین تشکیل دینے چاہئیں۔ عالم اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ رواداری برداشت اور مذہبی ہم ا?ہنگی کے سلسلے میں ایک منظم تحریک کا آغاز کرے تاکہ دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کیا جاسکے جو امن سلامتی انسانیت اخلاقیات اور برداشت پر مبنی چہرہ ہے ، جس کا عملی مظاہرہ سرور کائنات محسن انسانیت رحمت اللعالمین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور انکے خلفائے راشدین نے پیش کیا تھا۔ اسلام کے نام پر جو مخصوص لوگ انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں ، ان کا قرآن اور سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی فضا ابھی تک سوگوار ہے۔پہلی بار قرآن پاک کی تلاوت سے پارلیمنٹ کے اجلاس کا آغاز ہونا،وزیراعظم جیسنڈا کا اسلام علیکم کہنا، اجلاس میں بہادر پاکستانی شہری نعیم رشید کو خراج عقیدت پیش کرنا بہت خوش آئیند پہلو ہے۔نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار سپیکر پر اذان دی گئی جس کو ہزاروں کا مجمع سنتا رہا یہی اسلام کی کامیابی ہے۔واقعے کے ایک ہفتے کے دوران اسلام سے محبت کرنے والوں اور اس میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں جوق در جوق اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اگلے جمعہ کو پہلی بار اذان نیوزی لینڈ کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سے نشر کی گئی۔اور نہایت شان و شوکت سے نماز جمعہ ادا کی گئی۔اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن بھی سیاہ لباس میں ملبوس اور سر پر دوپٹہ اوڑھے موجود تھیں۔انہوں نے ہیگلے پارک میں موجود اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ خطاب سے قبل جیسنڈا نے حدیث مبارکہ کا ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ اس دوران ایک غیر معمولی بات نوٹس کی گئی کہ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے حضرت محمد ۖ کا نام لیتے ہوئے ان پر درود بھی بھیجا جس نے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔ جیسنڈا آرڈن کی اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر مقبولیت بھی حاصل ہوئی جس میں انہوں نے The Prophet Muhammad کہنے کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہا۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا آرڈن نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ۖ پر درود بھیج کر یہ ثابت کیا کہ اْن کے دل میں مسلمانوں کے لیے کتنی محبت اور احترام ہے۔
انہوں نے نہایت احترام سے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا اور حدیث پڑھ کر سنائی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر جب غیر مسلم پیغمبر اسلام حضرت محمد ۖکا نام لیتے ہیں تو یا تو صرف Prophet Muhammad کہتے ہیں یا پھر Prophet Muhammad کے ساتھ peace bo upon him کہتے ہیں لیکن نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے خصوصی طور پر عربی زبان میں آںحضرت ۖ پر درود بھیجا جو قابل تعریف ہے۔واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں جمعہ کے روز ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کے بعد وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے حضور پاکۖ کی حدیث مبارکہ پڑھ کر سناتے ہوئے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم تھا ” حضور ۖ نے فرمایا جو ایمان رکھتے ہیں،ان کی باہمی رحم دلی، ہمدردی اور احساس ایک جسم کی مانند ہوتا ہے۔ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ ” وزیراعظم جیسنڈا نے حدیث مبارکہ پڑھنے کے بعد مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ نیوزی لینڈ آپ کے دکھ میں شریک ہے اور ہم سب ایک ہیں۔دوسری جانب آسٹریلیا کے سینیٹرنے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان تارکین وطن کی وجہ سے ہی ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں ۔ اس آسٹریلوی سینیٹر کے مسلم دشمنی پر بیان کے خلاف نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں وسیع پیمانے پر رد عمل دیکھنے میں آیا اوراس کے رد عمل میں سترہ برس کے ایک نوجوان نے سینیٹر کے سر پر انڈا دے مارا۔ سینیٹر ایننگ نے اس کے جواب میں اس نوجوان کو دو گھونسے رسید کئے۔ تاہم آسٹریلیا میں نسل پرست سینیٹر پر حملہ کرنے والے نوجوان کو فوری طور پر قومی ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس نوجوان کے وکیل کی دو ہزار ڈالر فیس ادا کرنے کے لئے آن لائن مہم شروع کی گئی جس میں چوبیس گھنٹے کے اندر 25 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم وصول ہو چکی ہے اور مزید لوگ اس میں چندہ دے رہے ہیں۔
اس مہم کو اس سلوگن کے ساتھ چلایا گیا تھا’ لیگل فیس اور مزید انڈے۔ پولیس ایک طرف انڈا پھینکنے والے نوجوان کے خلاف تفتیش کررہی ہے تو دوسری طرف سینیٹر ایننگ کی طرف سے نوجوان پر تشدد کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ ‘سینیٹر ایننگ کے خلاف قانون کی پوری قوت استعمال کی جائے’۔ اس طرح انہوں نے نسلی تعصب پر مبنی رویہ کو مسترد کرتے ہوئے، نسلی تعصب کے خلاف پائی جانے والی بے چینی کو زبان دی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ معاشرے میں نفرت پھیلانے اور تشدد کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔امریکا میں ہوئی ایک اسٹڈی کے مطابق امریکی میڈیا میں ایسے حملے کی زیادہ سرگرم طریقے سے رپورٹنگ کرتا ہے، جس میں مجرم مسلمان ہو۔ تاہم اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں دائیں بازو کے انتہا پسند زیادہ حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جرائم میں ملوث غیر مسلم افراد کے مقابلے میں مسلمانوں کے بارے میں رپورٹنگ کا تناسب 449 فیصد زیادہ ہے۔قوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی سربراہ مشیل باچلے نے نیوزی لینڈ میں مساجد میں فائرنگ کے واقعے کو اسلام فوبیا، نسل پرستی اور دہشت گردانہ حملہ قرار دیا۔ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اراکین سے خطاب میں انہوں حملے کی شدید مذمت کی، اور سانحہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کی۔مشیل باچلے نے کہا سانحہ نے نسل پرستی کے ایک اور ہولناک واقعے کی یادہانی کرائی ہے، انسانی حقوق کونسل اسلامک فوبیا، نسل پرستی اور ہرقسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کو اپنے ملک کی طرح دنیا کی بھی دیکھ بھال کا کرنی چاہیے، آپ اپنے خاندان اور برادری کو جیسے عزت واحترام دیتے ہیں ایسے ہی دوسرے لوگوں کو دینا چاہیے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ اپنے حق کے لیے دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا ہی معاشرے کی سب سے بڑی خرابی ہے۔