ہم پاکستان میں بسنے والے جو ہندوو سکھ سے علیحدہ ہوئے تہتر برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان کے رسم و رواج سے ہی چھٹکارا حاصل نہ کر پائے تھے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے بے تکے وبے ہودہ، من گھڑت رسوم نے آکٹوپس کی طرح معاشرے کو اپنے شکنجے میں جکڑنا شروع کر دیا ہے۔بجائے اس کے کہ ہم لوگ اچھی اور بری چیز میں تمیز کر پائیں، ہم دن بدن ان کی فتنہ پروریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کی بیہودہ خرافات و روایات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلم نوجوانوں میں پھیل رہی ہیں۔ ان میں سے ہی ایک بد تہذیبی اور بے حیائی کو پھیلانے والی روایت ویلنٹائن ڈے بھی ہے۔اس دن کے بارے میں بھی کئی اقوال ہیں۔ یعنی منانے والے خود بھی کسی ایک قول پر متفق نہیں۔کوئی تو راہب اور راہبہ کی زنا بازی کی یاد میں مناتا ہے اور کوئی سینٹ ویلنٹائن کا اپنی فحش شاعری سے لوگوں کو بے راہروی کی طرف مائل کرکے اور خود ان کے لیے محبت کا دیوتا بن جانا، کی یاد میں مناتے ہیں۔
دن منانے کی وجہ جو بھی ہے۔ لیکن اس دن نے معاشرے میں طوفان بد تمیزی و بے حیائی برپا کر رکھا ہے۔ نوجوان نسل میں یہ دن مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ خاص کر کالجوں و یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس دن وہ شرم و حیا کی دھچکیاں بکھیر کر آپس میں اپنی حرام محبت کے اظہار کو اپنا حق سمجھتے ہیں جبکہ شرعی، اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے اس کی بہت سی خرابیاں و مفاسد ہیں۔ اس رسم بد نے عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو پامال کیا ہے۔نوجوانوں میں بے حیائی، بداخلاقی، آزادی و بے باکی پیدا کرکے شرم و حیا ،ادب و شرافت کو ختم کر ڈالا۔ ان میں جنسی بے راہ روی کو فروغ دیا۔ اور پھر نتیجہ وہی دلسوز خبریں ہیں جو روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔کسی بھی قوم کا بہترین اثاثہ اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ نوجوانوں میں اگر بے حیائی پھیل جائے تو بڑی بڑی مضبوط قومیں بھی شکست آلود ہو جاتی ہیں۔ دشمن نے اپنی بے ہودہ رسوم کی ہمارے درمیان تشہیر کر کے اورہمارے نوجوانوں کو ان میں ملوث کر کے ہم پر اپنی گندی تہذیب کی کاری ضرب لگائی ہے۔ ان کے ایمان و اخلاق سے کھیلا جاتا ہے۔ انہیں بے حیائی کی سرگرمیوں میں ملوث کر کے جذبہ ایمانی سے محروم کیا جاتا ہے۔
لیکن اے امت مسلمہ کے جوانوں ! اگر دنیا و آخرت میں عزت و سرفرازی چاہتے ہو تو تمہیں یہود و نصاری کی ان خرافات کو ٹھوکر مار کر ویلنٹائن کی بدبو دار محبت کی بجائے حیا کا لبادہ اوڑھنا ہو گا۔ کیونکہ معاملہ دل کا ہو یا دین کا، مسلمان کبھی بے حیا اور بدکردار نہیں ہوتا۔تیرے لیے تو تیرے عورت کے ساتھ خوبصورت رشتوں کی صورت میں قدم قدم پر محبتیں اور محبت بھری دعائیں ہیں جو تو نے اپنی پاکیزہ محبت وشفقت اور صالحیت کی بنا پر حاصل کرنی ہیں۔ زانیوں اورویلنٹائنیوں کی غلاظت بھری محبت اپنے دلوں سے نکال کر سب سے پہلیان کی محبت دلوں میں ڈالنی ہے جو ان محبتوں کے سب سے زیادہ حقدار ہیں یعنی اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اے مسلمان آج بھی تیرے ایک خط سے خشک دریا رواں ہو سکتے ہیں اگر تو اپنی محبتیں اصل حقداروں کو دے۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔
” اور اہل ایمان تو سب سے بڑھ کر اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں”( البقرہ 165)
اللہ تعالی کے بعد محبت کا حق اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے فرمایا۔ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور دنیا کے ہر انسان سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔( بخاری ومسلم)
اے مسلمانوں! ایک بار اپنے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا تو کر کے دیکھو۔ پھر تم کبھی بھی مالک کے احکامات سے بغاوت کرکے ناجائز و ناپاک محبت کے پیچھے نہیں بھاگوگے۔ اب فیصلہ تمہارا ہے۔ اطاعت پروردگار کر کے اوج فلک کو چھونا ہے۔ یا اغیار کی اندھی تقلید کر کے پستیوں کی اندھیر نگریوں میں گم ہونا ہے؟؟