تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم اِن دِنوں بالخصوص کراچی سمیت مُلکی سیاست کاجو حال ہے؟؟ اور یہ کس جانب کس رنگ ڈھنگ میں جارہی ہے؟؟ آج اِس سے کو نسا پاکستانی ہوگا؟؟ جو واقف نہ ہو، کیوں کہ سرزمینِ پاکستان میں سیاست کوعوام کی خدمت سمجھ کر نہیںکیا جارہاہے بلکہ ایسا لگتاہے کہ ن لیگ کی حکومت میں خود ن لیگ والوں سمیت پاکستان کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے وابستہ بھی مملکتِ پاکستان کے ہر خاص و عام سیاست دان نے سیاست کو اپنے ذاتی اور خاندانی فوائد کے حصول و استحکام اور خدمت و خوشحالی تک محدود کرکے اِ س کے تمام تر ثمرات اپنے دامنِ خاص میں سمیٹنے اور اپنی بقاءاور سالمیت کا ضامن سمجھ کرکرنے کی ڈھان لی ہے۔
آج اگر ایسا نہیں ہے؟؟ تو آپ میرے کہے کو اِسی پیچ پر چیلنچ کرسکتے ہیں، یا آپ ایسانہیں کرسکتے ہیں؟؟ تو پھرآپ کو میرے کہے کو ضرورماننا پڑے گاکہ پاکستان میں چند مٹھی بھر خاندانوں اور نئے پرانے سیاستدانوں نے مُلک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر اپنے پنجے گاڑ کرسیاست کو اپنے گھرکی لونڈی سمجھ رکھاہے اوریہ اِسے اپنی مرضی سے مُلک کی بیس کروڑعوام پر استعمال کرکے عوام کے کان جیسے چاہیں مروڑرہے ہیں اور عوام کو طرح طرح کے بحرانوں اور مسائل میں دھنساکر رونے بھی نہیں دے رہے ہیں۔۔
اگرچہ،سیاست اپنی وسعت کے اعتبارسے بہت زیادہ وسیع معنی رکھتی ہے مگرافسوس ہے کہ میرے دیس پاکستان میں سیاست کی روح اور معنی سے ناواقف لوگ ہی سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں،لنکن کا سیاست کے بارے میں قوی خیال یہ ہے کہ ”سیاست بیلٹ بُلٹ“ سے زیادہ طاقت رکھتی ہے،کیا آج سرزمینِ پاکستان میں سیاست کے کھلاڑی سیاست کے یہ معنی سمجھتے اورجانتے ہیں ؟؟میراخیال ہے کہ یقینانہیں جانتے ہیںاگر یہ جان رہے ہوتے تو کبھی بھی بیلٹ اور بُلٹ کو سیاست سے زیادہ طاقتور نہ سمجھتے اور اِس کے بے سوچے سمجھے استعمال سے اپنی سیاست میں حائل اپنے مخالف کی سانسوں کی دوڑی نہ کاٹ رہے ہوتے۔
Politics
سیاست کو سیاست سمجھ کرکررہے ہوتے …تویقیناآج سرزمینِ پاکستان میں سیاست کا رنگ ڈھنگ ایسا ظالم اور خوفناک ہرگزنہ ہوتاجیساکہ موجودہ حالات اور واقعات کی صورت میں دِکھائی دے رہاہے۔اَب یہاں میں گوئٹے کا ایک قول بیان کرکے اپنی بات آگے بڑھاناچاہوں گاکہ” سیاست اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں۔ جبکہ سرزمین پاکستان میں سیاست کا جیساچہرہ سیاستدانوں نے مسخ کرکے قوم کے سامنے پیش کیا ہے ایسے میں سوچنے اور غورکرنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاستدانوں نے سیاست کا یہ حال کیا ہواہے کہ اُنہوں نے اپنی ذاتی مفادپرستانہ سیاست کے خاطر لاکھوں اِنسانوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچارکرکے اِسے تو بس اپنی تقدیرسے وابستہ کرلیا ہے اور مُلکی استحکام اور قوم کی خدمت وخوشحالی کو پسِ پشت ڈال کر اپنے فائدے کے حصول کا ذریعہ ءخاص بنالیا ہے۔
آج اِس سے اِنکار نہیں کہ میرے مُلک میں سیاستدانوں سے لے کرحکمرانوں تک کی ذاتی مفاداتی سیاست اپنی جگہہ برحق دِکھائی دیتی ہے مگر اِس چکرمیں اِنہوں نے مُلک کے استحکام اور قوم و عوام کی ترقی اور خوشحالی اور دیگر فلاح وبہبود کو پسِ پشت ڈال دیاہے،اِن دِنوں سیاستدانوں کی مفاد پرستانہ سیاست کو دیکھ کر یہی خیال آتاہے کہ اِن عیاراور مکار سیاستدانوں کے نزدیک سیاست کو اپنے ذاتی مفادات کے بغیرکرنااِن کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیاہے اِن کے لئے سیاست اور حکومت کی محبت کو چھوڑنابہت مشکل ہوگیاہے۔
جبکہ ایسے میں پاکستانی قوم کے لئے باعثِ فخر اور لائقِ ستائش امر یہ ہے کہ آج بھی اِس حالت میں سرزمینِ پاکستان میں چند ایسے بھی غریب پرورسیاستدان موجود ہیں جن کا ابھی خام و قوی خیال اور بہت سی بڑی بڑی اُ مید یں ہیں کہ آج بھی اگرشہرِ قائد کراچی کی اچھی بھلی سیاست میں کسی جماعت پر پرانے اسکرپٹ پڑھ کر طرح طرح کی الزامات کی بارش اوربہتان تراشیاں کرکے اچانک تلاطم خیزی پیداکرنے والے مائنس مصطفی کمال( سابق ناظمِ کراچی) جو ماضی میں بالخصوص نئے پرانے صحافیوں اور خواتین پراپنی زبان کے نشتر کے استعمال سے ایسے زہریلے ثابت ہوئے ہیں کہ اُن دِنوں اِن کی گفتگو سُننے والا اللہ کی پناہ مانگاکرتاتھا۔
Pakistan
جی ہاں آج بھی وہی ماضی کے انتہائی تُرش رو اور غصے کا مظاہر کرنے والے مصطفی کمال جو اپنے سامنے والے ہر خاص وعام اور مجبورو بے کس پر اپنے تیز اور زہریلے جملوں اور اپنی انتہائی ہتک آمیز انداز گفتگوسے بندوق کی گولی سے بھی زیادہ گہرے زخم لگانے میں خاص مہارت وپہنچان اور شناخت رکھتے ہیں اِن کے بغیردیگر بے لوث اور غیورپاکستانیوں پر مشتمل سیاسی افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو کوئی مشکل نہیں کہ پاکستان میںبھی دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور پڑوسی ممالک کی طرح صاف سُتھری اور مثبت سیاست پروان چڑھ سکے گی اور یہی چندمحبِ وطن افراد پر مشتمل سیاستدان قوم کو اُس سمت کی جانب گامزن کرسکیں گے جس کی تلاش میں محب وطن اور غیور پاکستانی قوم 68سالوں سے متلاشی تھی۔
جبکہ آج جس طرح پاکستانی پرچم کے سائے میں جس نئی تنظیم کی بنیاد رکھنے اورمُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا عزمِ خاص لے کر سابق ناظم کراچی مسٹرمصطفی کمال فرنٹ مین شوکا سلسلہ شروع کرچکے ہیں اَب ایسے میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ” کیا مصطفی کمال اپنے ”تو“ تیرے“ تجھے“ اور ” ابے“ جیسے بیدریغ لفظوں کے استعمال سے کراچی کے عوام کو اپناگرویدہ بناسکیں گے۔
یا مصطفی کمال باقاعدہ طور پر نئی جماعت کے قائد بننے سے پہلے اپنے کسی بھی طرح سے غروراور گھمنڈکے اُس بت کو بھی پاش پاش کردیں گے؟؟ جو اُنہوں نے ماضی میں اپنی مرضی سے تراش رکھاتھااور آج بھی جس کاریکاڈمیڈیااور عوام کے دماغ اور دل میں محفوظ ہے، اگر وہ اِس کے لئے تیار ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اِس جانب ضرور سوچیں کراچی کے عوام شاید کسی گھمنڈی مصطفی کمال کو قبول نہ کریں۔
Azam Azeem Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com