ڈیرہ اسماعیل خان (سیدتوقیرزیدی) مصطفٰی کمال کے جلسے سے پہلے مزیدار کان اسمبلی متحدہ کو خیر باد کہہ دیں گے۔ سکاٹ لینڈ کی تفتیش کے نتیجے میں حقائق کا رخ بدل چکا ہے اس لئے اب مقابلہ بھی نئے طریقوں سے کرنا ہوگا،پرانے طورطریقوں سے بدلے ہوئے حالات میں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ الطاف حسین کے بارے میںچند دن میں مزید شواہد سامنے آجائیں گے ۔ مصطفٰی کمال کے قافلے پانچ لوگ ہیں تازہ اضافہ وسیم آفتاب اور افتخار عالم کا ہوا ہے۔ اول الذکر نے ڈاکٹر محمد صغیر کی طرح سندھ اسمبلی کی رکنیت بھی چھوڑ دی ہے، اگر مزید چند ارکان ایم کیوایم اور سندھ اسمبلی کو بیک وقت داغِ مفارقت دے گئے تو ضمنی انتخاب میں اچھی خاصی رونق لگ جائے گی۔ باخبرزرائع کے مطابق بظاہر حکمت عملی یہ لگتی ہے کہ ایک ایک دو دو ارکان متحدہ کو چھوڑتے اور مصطفی کمال کو جائن کرتے رہیں گے۔
انیس قائم خانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل میں ان کا بڑا متحرک کردار رہا ہے اسی طرح وسیم آفتاب بھی تنظیمی کام کو بخوبی سمجھتے ہیں ، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مصطفی کمال کی نئی پارٹی کی تنظیم میں بھی یہ لوگ اہم کردار ادا کریں گے۔زرائع کے مطابق مصطفی کمال نے ”را” کے حوالے سے جو الزامات ایم کیوایم کے قائد پر لگائے تھے رابطہ کمیٹی نے ان تمام الزامات کو ”پرانے” کہہ کر مسترد کر دیا ہے لیکن ایک سوال اب بھی اٹھایا جاتا ہے کہ بھلے سے یہ الزام پرانے ہیں۔
لیکن ان الزامات کی ماضی میں کب شواہد کے ساتھ تردید ہوئی۔۔ ؟ اور کیا اب بھی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے بارے میں حقیقت حال سامنے لائی جائے ، وزیرداخلہ نے سرفراز مرچنٹ کے الزامات کی تحقیقات کے لئے جو کمیٹی بنائی ہے اگر وہ اس میں پیش ہوکر اپنے الزامات دہراتے ہیں اور ان کے ثبوت سامنے لاتے ہیں تو یہ طے ہو جائے گا کہ ان میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے، البتہ اب معاملات جس نہج پر جارہے ہیں اس میں نہ تو الزامات کو محض یہ کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے کہ وہ پرانے ہیں، اور نہ یہ کہہ کر ان سے جان چھڑائی جاسکتی ہے کہ یہ بھی 92ء کی طرح کی سازش ہے۔ الزام پرانے ہوں یا نئے، سازش پرانی ہو یا نئی اب بعض ایسی باتیں بھی ضرور سامنے آئیں گی جو ماضی میں یا تو دبی رہیں یا پھر کسی نے یہ باتیں کرنے کی جرآت نہیں کی۔
جولوگ ایم کیوایم سے نکلنے والے پرندوں کی اس نئی ڈار کو محض سرسری انداز میں لے رہے ہیں، یا اس کا موازنہ ایسی پرانی کوشش سے کررہے ہیں انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ اب بہت کچھ نہ صرف بدل چکا ہے بلکہ بدلتے مناظر میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، جولوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب پرانی ٹیکنیک ہے ان کی توجہ ان چند حقائق کی طرف دلائی جارہی ہے (1)لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اس وقت نہیں ہواتھا۔ (2)سکاٹ لینڈ یارڈ ٹرک بھرکر وہ کاغذات اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا جن میں بقول مصطفی کمال ”را” سے تعلق کے ایسے شواہد موجود تھے جن کی تردید کرنا آسان نہیں۔ (3) الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا اس وقت کوئی کیس نہیں تھا یہ کیس عمران فاروق قتل کیس کے بعد بنا۔ (4)اس وقت الطاف حسین کی صحت اس حدتک دگرگوں نہ تھی جو آج بیان کی جاتی ہے۔ (5)پریشان خیالی کا بھی وہ عالم نہ تھا جو آج نظر آتا ہے۔
متحدہ نے مصطفی کمال کی سیاسی حرکیات کا جواب کراچی میں صفائی کرکے اور کچرا اٹھا کر دینے کی جو کوشش کی ہے کیا اس سے ٹوٹ پھوٹ کا وہ عمل رک جائے گا جو متحدہ کے اندر شروع ہوچکا ہے اور جو ابھی رکنے نہیں جاری رہنے کا امکان ہے۔ متحدہ کے بعض دوسرے اہم ارکان بھی ٹوٹ کر مصطفی کمال کے ساتھ ملیں گے جو بھی الگ ہوگا اس پر ”کنگ آف چائنہ کٹنگ ” جیسے الزام بھی لگیں گے لیکن محض الزام تراشیوں اور طعنوں سے یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی میں کچرے کے ڈھیر آج لگے ہیں اور کیا چند دن پہلے تک یہ شہر بالکل صاف ستھرا تھا اور اب اچانک گندا ہوگیا؟۔
متحدہ قومی موومنٹ 2013ء کے الیکشن سے پہلے نگران حکومتیں بننے تک وفاق اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ حکمران تھی۔ کیا اس وقت کراچی شہر چمک دمک رہا تھا؟ صفائی کی ضرورت جو آج محسوس کی گئی ہے کیا آج سے پہلے اس کی ضرورت نہ تھی، چند مہینے پہلے ایک نوجوان نے گٹروں کے ڈھکن پر وزیراعلیٰ سندھ کی تصویر لگانا شروع کی تھی اور اپنی اس حرکت پر گرفتار بھی ہوگیا تھا تاہم اس کے بعد اتنا ضرور ہوا کہ سندھ حکومت نے گٹروں پر ڈھکن رکھوانا شروع کردیئے تھے۔ اب اگر مصطفی کمال کی آمد کی وجہ سے ایم کیوایم کو صفائی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے تو چلئے کسی بہانے تو کسی کو احساس ہوا کہ شہر میں صفائی کی ضرورت ہے۔