تحریر: ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی ِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوةُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آزادی اظہار کے نام پر فرانس کے چارلی نے گستاخانہ خاکے چھاپ کر جو دجّالی کی ہے اس کی وجہ سے دو ارب مسلمانوں کے سینے زخمی ہیں اس پر مستزاد یہ کہ اوبامہ اور کیمرون ان خاکوں کو اپنی آزادی قرار دے رہے ہیں اور یہ کہ انہیں یہ آزادی بہت عزیز ہے اور وہ اسے دبنے نہیں دیں گے اس سے پتہ چلتاہے کہ مغرب نے مسلمانوں کے صرف دل زخمی نہیں کیے بلکہ اوپر نمک چھڑکنا بھی شروع کر رکھا ہے جس سے مصطفویوں اور چارلیوں کے درمیان تصادم کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں جس کا نتیجہ تیسری جنگ عظیم کی شکل میں نکل سکتا ہے ہم مغرب پہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی اظہار خیال کی آزادی پوری دنیا کی بربادی کا باعث بن سکتی ہے انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ انہوں نے کس عظیم ذات کے خاکے بنائے ہیں اور کس شان کے چاند کی طرف معاذ اللہ انہوں نے تھوکنے کے لیے منہ اٹھانے کی جسارت کی ہے۔
شان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات کا سب سے اولین موضوع اور صفحہ ہستی کا سب سے پہلا مضمون ہے ۔،یہی امر کُنْ کی تجلی اور یہی لَوْلَاکَکے خطاب کا سینہ ہے ، یہی نور اول کا جلوہ اور یہی شان ارواح کا نغمہ ہے۔ کتاب ہستی کے سر ورق پر گر نام احمد رقم نہ ہوتا نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لوح و قلم نہ ہوتا شان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے بارے میں رب ذوالجلال نے لا مکان اور عالم ارواح میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے حلف لیا ۔ اس شان پر ایمان اور نصرت کو لازم قرار دیا ،اس عہد کی پاسداری کو نبوت کے برقرار یہ وہی شان اقدس ہے جو پرور دگار عالم عزَّ اِسمہ فرشتوں کے سامنے مسلسل بیان کرے ۔ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام محافل جنت میں اسی کا تذکرہ کریں ، حضرت سیدنا نوح علیہ السلام اپنی کشتی کی نجات میں اسی کا ورد کریں ، حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام نار کے گلزار ہونے کے پر اسی کا خطبہ دیں ، حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کے طور پر اسی کا سرور اور حضرت عیسی علیہ السلام کے دست شفا سے اسی کا ظہور تھا۔
شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سچی محبتوں کا پیش لفظ ، روشن عقیدتوں کا مقدمہ ، حسین ارادتوں کا ابتدائیہ اور بے تاب الفتوں کی تمہید ، یہی عرش کے تاج کی توقیر ، لوح قدس کی اولین تحریر ، نگاہ انسان کی پہلی تنویر اور زبان آدمیت کی پہلی تقریر ہے ۔ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم انجیل کا عنوان ، تورات کی سوغات ، زبور کی زیبائی ،صحائف کی رعنائی ،”وَالْقَلَمِ وَمَایَسْطُرُوْنَ” کی روشنائی اور یہی ”اِقْرِا بِاسْمِ رَبِّکَ ”کی پڑھائی ہے ،یہ شان رب نے ایسی بنائی کہ ہر گھڑی بڑھائی ہے شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم زبان کعبہ کی گفتگو ، دار ارقم کی خوشبو ، غار حرا کی آبرو ،غار ثور کی جستجو ، اعلان نبوت کا فیضان ، ہجرت کا وجدان ، بدر و حنین کا نشانہ ، احد و خندق کا ترانہ ، حدیبیہ میں لعاب دھن ماتھے پہ لگانے والوں کا نعرہ مستانہ اور فتح مکہ کا خزانہ ہے۔ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ دین کا آغاز، شب معراج کی پرواز ، سدرة المنتھی کی صدا ، بیعت عقبہ ثانیہ کی وفا ، بیعت رضوان کی نوا ، منی کی دعا اور حجة الوداع کا خطبہ ہے۔
شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پے چار یا ر رضی اللہ عنہم جان نثار ، پنج تن پاک رضی اللہ عنہم پہرے دار ، اھل بیت رضی اللہ عنہم وفا شعار اور صحابہ اسی پر مر مٹنے کیلئے ہر وقت تیار تھے ۔ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ حرم حرم ،بزم بزم ، قلم قلم ،قدم قدم ، بالعزم والجزم جس میں زبان کے تکلم کو بھی حصہ ملے اور آواز کے ترنم کو بھی ، ہونٹوں کے تبسم کو حصہ ملے اور آنکھوں کے نم کو بھی ، یہ نوک قلم سے بیان ہو ، سوز سخن سے بیان ہو اس کے بیان کرنے کیلئے منبر بھی ،مسند بھی ، محفل بھی ، کربل بھی ، مشھد بھی ، مدفن بھی شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ تن خوشبو ہو کر بیان کی جاتی ہے ،اور کبھی لہو سے با وضو ہو کر بھی بیان کی جاتی ہے ، کبھی نگاہیں جھکا کر بیان کی جاتی ہے اور کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیان کی جاتی ہے ، کبھی میدانوں میں اترتے ہوئے بیان کی جاتی ہے اور کبھی تختہ دار پہ چڑھتے ہو ئے بیان کی جاتی ہے ۔ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے غم کا ازالہ ہو ، خوشی دوبالا ہو ، زندگی مسرور ہو قبر پر نور ہو ، زبان معطر رہے دھیان منور رہے ،دل میں ایمان رہے راضی رحمان رہے ۔ اس شان کا بیان ضروری ہے تعمیر سیرت کیلئے نور بصیرت کیلئے ، دل کی صفائی کیلئے ، گناھوں کی دھلائی کیلئے ہر رہنمائی کیلئے ، حقیقی بینائی کیلئے مشکل کشائی کیلئے۔
Mhammad Pbuh
شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے میں بھی لذت ، لکھنے میں بھی لذت ، سننے میں بھی لذت ، سنانے میں لذت ، دیکھنے میں بھی لذت ، دیکھنے کے انتظار میں بھی لذت اس شان کا تذکرہ خزائوں میں بہار کا ضامن ، اجڑے دلوں کیلئے قرار کا ضامن ، ناکامیوں میں کامیابی کی نوید ، مایوسیوں میں روشنی کی امید سیاہ بختیوں میں سعادت کی کلید ، مردہ دلوں کے لئے زندگی کی عید۔شان رسول کے بیان سے زبان کو عزت ملے ، قلم کو عظمت ملے ، مکان کو رفعت ملے ، زبان کو شوکت ملے ، دل کو چاندنی ملے ، دماغ کو روشنی ملے ، خیال مسرور ہو جائے شعور پر نور ہو جائے ۔ان کی یاد ہو تو گھر برباد نہ ہو ، سوچ میں فساد نہ ہو ،سینہ ویران نہ ہو ، چہر ہ پریشان نہ ہو ، جگر کو خون ملے ، سر کو سکون ملے ، مقدر سنور جائے قسمت نکھر جائے ، مشکل ٹل جائے گرتا سنبھل جائے ، مرجھایا کھل جائے ، تقدیر بدل جائے ۔ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم بڑھتی ہے گھٹتی نہیں ، پھیلتی ہے سمٹتی نہیں ، اس میں کثرت ہے قلت نہیں ، یہاں عروج مگر زوال نہیں ، ترقی ہے تنزل نہیں
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ابوجھل ، ابو لھب سے لے کر آج کے خاکے بنانے والے ملعو نوں تک بدتر بھی ہیںاور ابتر بھی ہیں، بے شرم و بے حیاء بھی ہیں ، ذلیل و رسوا بھی ہیں،حقارت کا حوالہ بنے ، نفرت مقام قرار پائے ،آتش جھنم کا ایندھن بنے اور نار سقر کابندھن بنے ۔ مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالے کل بھی ھمالے ،آج بھی ھمالے ، کل بھی نرالے ،آج بھی نرالے ان کے چہروں پہ کل بھی اجالے، آج بھی اجالے ، پہلے امامت میں کامل پچھلے اقتداء میں کامل پہلے دیدار پہ شیدا پچھلے نام پہ بھی فدا ، اُن کا عشق مصروف دید ، اِن کا عشق محو تقلید ، ہر نئی صدی میں نئے سال میں نئی صبح میں نئی شام میں نئی گھڑی میں نئی آن میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تازہ لہر نظر آتی ہے ۔ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جتنے جلسے منعقد ہوتے ہیں اتنے کسی اور انسان کیلئے نہیں جتنے آنسو ان کی یاد میں بہائے گئے کسی اور کیلئے نہیں جتنا خون اس کی حفاظت کیلئے پیش کیا گیا کسی اور کیلئے نہیں ،شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جتنا سوچا گیا جتنا لکھا گیا جتنا پڑھا گیا کسی اور انسان کے لئے نہیں یہ شان جتنی کتابوں میں ہے کسی اور کی نہیں ،جتنے خوابوں میں ہے کسی اور کی نہیں ،یہ شان جتنی زبانوں پہ ہے کسی اور کی نہیں جتنے زمانوں میں ہے کسی اور کی نہیں
کلیم و نجی ، مسیح و صفی خلیل و رضی رسول و نبی عتیق و وصی غنی و علی ثنا کی زبان تمہارے لئے سچ فرمایا تھا مخدومہ کونین ،طیبہ طاہرہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب ان کے پاس حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس چھوڑنے آ گئیں کہ مجھے ان پر شیطان کے حملوں کی وجہ سے خطرہ ہے تو میں امانت سپرد کرنے آگئی ہوں تو حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ” خدا کی قسم میرے لخت جگر کا شیطان کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا یقینا مستقبل میں میرے بیٹے کی بڑی شان کا اظہار ہونے والا ہے” چنانچہ خاکے بنانے والے خاک ہو جائیں گے اور عظمت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم عرش پہ لہراتا رہے گا جسے کوئی اتار نہیں سکتا۔
عرش کی چوٹی پہ ہے پرچم شہ لولاک کا یہ مقام مصطفےٰ ہے پڑھ لو قرآن رسول مغربی آنکھوں میں ہے گستاخیوں کا موتیا ورنہ ہر سو جلوہ گر ہے عظمت و شان رسول وار دیں گے ان کی خاطر جان بھی ہم ایک دن کر رہے ہیں عھد پکا سب غلامان رسول شان رسول پر پہرا دینے کیلئے چلو درسگاہوں سے ،خانقاہوں سے، آرامگاہوں سے، سیر گاہوں سے ،دفاتر، دکانوں سے، کھیتوں کھلیانوں سے اور باطل پر لرزہ طاری کر تے ہوئے یورپی یونین کو تعظیم انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے قانون سازی کرنے اور خاکے بنانے والوں کو سزا دینے پر مجبور کر دو۔