خاموش مجاہد

Allha

Allha

پوری قوم سوگواری کے حصار میں گھر گئی آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کی طرح بھڑکنے والی آگ بجھانے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں ہمارے دیرینہ حلیف امریکہ بہادر کی اختراع تھی۔”کیپٹل ایریا کے مکین6 ماہ کے لیے اپنی جائے رہائش کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیں راولپنڈی اور اسلام آباد کا سارا کنٹرول ہماری دسترس میں دے دیا جائے۔ جنرل ضیاء کی پریشانی قابل دید تھی ایسے میں ایک ایسا خاموش مجاہد آڑے آ گیا۔ ایمانداری، خود اعتمادی، تقویٰ اور ذات واحد پر بھر وسہ جس کے اوصاف حمیدہ تھے۔ اس کے چہرے سے نورانیت جھلکتی تھی اس کا استدلال تھا کہ عزت اور ذلت مصیبت اور اس کا مداوا اس ذات کے ہاتھ میں جو رات کے سناٹے میں چیونٹی کے قدمو ںکی چاپ سنتا ہے۔ یہ جنرل ناصر جاوید تھے۔ آگ کو مسمار کرنے کی ذمہ داری اس مجاہد نے اپنے سر لے لی۔ اس نے ایسے چالیس عسکری نوجوانوں کا چنائو کیا جن کے ایمان کردار گفتار اور جذبہ انسانیت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی تھی۔

ابراہیمی جذبہ سے سرشار یہ جماعت آگ سرد کرنے نکلی جماعت میں شامل موت کے خوف سے نڈر کئی خاموش مجاہد شہادت کا رتبہ پا گئے اس محدود عسکری ونگ نے سپر پاور کے ماہرین تجزیہ نگاروں اور تھنک ٹینک کے سارے اندازوں پر پانی پھیر دیا وہ آگ جسے سپر پاور کے اعلیٰ دماغوں نے 6 ماہ میں سرد کرنے کا ٹارگٹ رکھا اللہ والوں کی جماعت نے اسے 16 روز میں بجھا ڈالا۔ 28 جولائی 2010 کو وطن عزیز میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے منہ زور ریلوں نے جب بستیوں کو تاراج کیا، نسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیا تو یہ ناگہانی صورت ان وزیروں، مشیروں اور عوامی نمائندوں کے لیے انتہائی پریشان کن تھی موت کے بھنور میں ہچکولے کھاتی قوم کو دیکھنے کے لیے فضائی دوروں پر محض فوٹو سیشن کی خاطر وہ عازم سفر ہوئے۔ ایسے میں شامل خاموش مجاہد موت کے شانوں پر ہاتھ رکھ کرپانی کی طلاطم خیز موجوں میں انسانیت کو بچانے اُتر گئے۔

Balochistan Quake

Balochistan Quake

جہاں حکومتی ٹیمیوں نے پہنچنانا ممکن سمجھا آپ 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کو لیں یا بلوچستان میں حالیہ تباہ کن زلزلہ کوآپ کو بے سرو سامانی کے عالم میں بکھری انسانیت کو سمیٹنے کی شکل میں انہی خاموش مجاہدوں کا کردار نظر آئے گا وہ خاموش مجاہد جو زخم زخم انسانیت پر محبت خلوص ہمدردی کے پھاہے رکھتے رکھتے اشرف المخلوقات کے حقیقی مقام پر فائز ہوئے خیبر سے دیبل تک انسانوں کا یہ کارواں رواں دواں رہا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب بھی قوم پر کوئی مشکل اور صبر آزماء آفت ٹوٹی انسانوں کا یہ قافلہ پیش پیش نظر آیا۔ ان کارواں ان قافلوں میں شامل یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی مرضی اور خواہش سے دنیا کی لذتوں کو ٹھکرا کر کٹھن آزما راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

نوکریوں کا لالچ مستقبل میں خوابوں کی تکمیل کا ایجنڈا بے روز گاری کی مجبوری عارضی سہولتوں کا جھانسہ جن پر اثر انداز نہیں ہوتا لذیذ کھانے جن کی کمزوری نہیں عمدہ پوشاک جن کی طمع نہیں قیمتی جوتے آرزو نہیں دانوں پر گرنے والے طائر قصر سلطانی جن کے گنبد نہیں جن کی پروازیں نگاہوں سے بلند جو ٹھہریں تو کوہ گراں کہ دنیا جن کے قدموں کو ہلا نہ سکیں جو چلیں تو ہوائیں سنگ ہو لیں ماحول کو بدل ڈالیں۔ یہ کیسے خاموش مجاہد ہیں جو ماحول کے ساتھ نہیں بدلتے فیشن سٹائل اور نئے ڈیزائنوں کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتے جدت پسندی کے کمپلیکس کا جو شکار نہیں یکسانیت کی بوریت سے جو متاثر نہیں ہوتے نقالی جن کا شعار نہیں جو دنیا کے رنگوں کے مطابق اپنا رنگ نہیں بدلتے دنیا کے ٹرینڈز جن کے مزاج پر اثر انداز نہیں ہوتے، جن کی تفریح وہ نہیں جس کا سٹیج حیا کے سوداگر تیار کریں۔

جن کا موڈ جن کی طبیعت ذاتی وجوہات کی غلام نہیں جن کے فیورٹس سکرینوں کے ذریعے متعین نہیں ہوتے کسی پوسٹر کی دلکشی جن کے فین متعین نہیں کرتی جن کی انجوائے منٹ شیطانی حرکتوں میں نہیں جو فریش ہوتے ہیں لیکن اپنی مرضی کو بے لگام کر کے نہیں جو ٹرینڈ سیٹرز ہیں رخصتیں تلاش نہیں کرتے عزیمتوں کی راہ اختیار کرتے ہیں گنجائشیں پیدا کر کے اصولوں سے روگردانی نہیں کرتے۔ انہیں خاموش مجاہدوں کی بدولت ہماری تاریخ کے اوراق روشن ہیں انسانیت ایسے مجاہدوں کے لیے ترس اور تڑپ رہی ہے یہی خاموش مجاہد تخلیق آدم کا مقصد ہیں اگر کوئی انسان جینے کا حقیقی مزا اور لطف حاصل کرنا چاہتا ہے تو انسانیت سے محبت کر کے دیکھے آئیے ان ”خاموش مجاہدوں” کو خراج تحسین پیش کریں۔ اورِِ محشر کی عدالت میں ان کی کامیابی اور کامرانی کے لیے ہاتھ اُٹھائیں۔

M.R. Malik

M.R. Malik

تحریر : ایم آر ملک