صحت، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو ہر شخص کا بنیادی اور قانونی حق ہے۔صحت حاصل کرنے اور اْسے برقرار رکھنے کے لیے سب زیادہ ذمہ داری ریاست پرعائد ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے عوام کی صحت وسلامتی اور دیگر بنیادی ضروریات کی ضامن ہوتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ انگریز کے لیے عوام کی صحت کی ضرورت اورحفاظت صرف اپنے کام کے ملازم، سپاہی اور فوجی تک محدود تھی، ورنہ عوام کسی کھاتے میں شمارنہیں ہوتے تھے۔انگریز کے لیے اپنے گورے سول اورفوجی ملازم ہی اہم تھے۔ چنانچہ چھاؤنیوں میں پہلے اْن کے لیے ہسپتال بنے اور صفائی کا نظام بہترکیاگیا۔فوج کی صحت کے بعد انسپکٹرجنرل ڈسپنسریز اور جیل خانہ جات کاعہدہ قائم کیاگیا، جس نے فوجی پیداکرنے والے علاقوں میں ڈسپنسریوں کاآغازکیا،تاکہ صحت مند نسل کے نوجوان تاج برطانیہ کی حفاظت کے لیے بھرتی ہوسکیں۔وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے بڑے شہروں اورقصبوں میں سینی ٹیشن اور چیچک وٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکوں کاانتظام کیا گیا۔ دیہات جہاں50فی صد سے زائد محنت کش آبادی رہتی تھی اْسے آفات اور تعویذ گنڈے، جھاڑپھونک کے رحم وکرم پرچھوڑدیاگیا۔’نظریہ ضرورت‘ کے تحت نظام صحت وصفائی میں کچھ بہتری اس وقت آئی، جب انگریز کواپنی نوآبادیاتی مملکت پرجرمنی، اٹلی اورجاپان کے حملے کے خطرات منڈلاتے نظر آئے۔ تب اْس نے شہری دفاع،فائربریگیڈ اور شہری علاقوں میں سول ہسپتال قائم کیے۔
1947 ء میں موجودہ پاکستان میں جہاں آبادی تقریباً 3کروڑنفوس تھی، اس کے چاروں صوبوں اور مشرقی پاکستان میں انتظامی اضلاع اورڈویثر نوں کی تعدادبہت تھوڑی تھی۔ہرضلعی صدرمقام پر ایک سول ہسپتال اورضلع کے چند شہروں اور دوسرے حصوں میں محدود پیمانے پر ڈسپنسریاں تھیں۔ ان ڈسپنسریوں میں کئی مقامات پر LSMF ڈاکٹر یا نیم تربیت یافتہ ڈسپنسر تعینات کیے گئے تھے، جہاں زیادہ ترمقامی طورپرتیارکردہ گولیاں ،مکسچراور سفوف (پاؤڈر) استعمال ہوتے تھے۔ مسلّمہ دواساز فیکٹری کی تیارشدہ ادویات نہیں ہوتی تھیں۔ملک بھرکے دیہات کسی ایمرجنسی اور میڈیکل امدادی سہولت سے محروم تھے۔
سیلاب اورمتعدی وبائی امراض اْن کا مقدررہے۔ ماؤں، بچوں اور ضعیفوں کا کوئی پْرسانِ حال نہ تھا۔ عوام حفاظتی اور تائیدی صحت سے محروم تھے۔ سادہ زندگی میں امراض بھی سادہ تھے۔سیاسی اَدوار میں عام ہسپتالوں اورڈسپنسریوں میں معتدبہ اضافہ نہ ہوا۔ البتہ پنجاب میں نشترمیڈیکل کالج، ملتان اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور کے علاوہ چند ضلعی ہسپتال تعمیر ہوئے۔ انتظامی سہولت کے لیے ضلعی صدرمقام پرسول سرجن کی پوسٹ کومیڈیکل سپرنٹنڈنٹ(MS) اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(DHO) میں بانٹ دیا گیا۔ایک شہر کے علاج کے لیے،دوسرا باقی ضلع میں صحت وصفائی اوروہاں قائم شدہ چند ڈسپنسریوں کی نگرانی کے لیے۔
اس حوالے سے ضلع مظفرگڑھ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ضلع مظفرگڑھ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں قائم ضلع کے واحد ڈائیلسز سنٹر میں 50 غریب اور مستحق مریضوں کا روزانہ مفت ڈائیلسز کیا جاتا تھا۔محکمہ صحت پنجاب نے ڈائیلسز سنٹر کے 80 فیصد سے زائد فنڈ کم کر دیے گئے۔ اب 46 لاکھ آبادی پر مشتمل ضلع کے صرف 10 مریضوں کا روزانہ مفت ڈائیلسز کیا جاسکتا ہے۔فنڈز کم ہونے کے باعث کئی مریضوں کو ڈائیلسز کیے بغیر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔بتا یا جاتا ہے کہ اس وقت تقریباً ڈائیلسز سنٹر میں ضلع مظفرگڑھ کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 7سو جبکہ ان رجسٹرڈ مریضوں ہزاروں میں ہیں۔پہلے دن میں 3 شفٹوں میں روزانہ 50 سے زائد افراد کا مفت ڈائیلسز کیاجارہا تھا مگر موجودہ فنڈز میں صرف 10 مریضوں کا مفت ڈائیلسز ہی ممکن ہے۔
افسوس نا ک بات یہ ہے مریضوں کے احتجاج اور اخبارات میں رپورٹس شائع ہونے کے باوجود ضلع مظفرگڑھ تعلق رکھنے والی اہم شخصیا ت کی خاموشی سے کئی سوالات کو جنم لے رہیں، اس ضلع سے تعلق رکھنے اہم شخصیات میں6رکن قومی اسمبلی اور12رکن پنجاب اسمبلی ہیں ان علاوہ بھی بہت سے سیاسی لوگوں شامل ہیں ، جن میں ’’ شبیر محسن قریشی ،ملک سلطان ہنجرا، سابق گورنر پنجاب اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب ملک مصطفی کھر ، جمشید دستی،مہرارشاداحمد خان،ملک نور ربانی کھر ، جاوید دستی،رانا محبوب اختر ، طارق گورمانی،ملک رفیق کھر، محبوب غازی کھر ،فاروق کھر،سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر ،رضا ربانی کھر، مہر ارشاد سیال ،ساجد نعیم قریشی ، تہمینہ دستی، سابق وزیر امجد حمید دستی ،،حماد نواز ٹیپو ،ملک احمد کریم قسور لنگڑیال ،نوابزادہ افتخار،نواب زادہ منصور باسط سلطان بخاری ، باسط سلطان بخاری، سردار معظم علی جتوئی ،عاشق خان گوپانگ ، عامر طلال گوپانگ ،ہارون سلطان بخاری ،سردار عبدالقیوم جتوئی ودیگر معززشخصیات شامل ہیں۔
صحت عامہ کے حوالے تحصیل مظفر گڑھمیں 35 یونین کونسلیں، تحصیل کوٹ ادومیں 28 یونین کونسلیں ، تحصیل جتوئی میں 16 یونین کونسلیں اور تحصیل علی پور میں 30 یونین کونسلیں کے چیئرمین ، وائس چیئرمین ، کونسلرز بڑے بڑے سردارقبیلوں کی نمائندگی کرنے والے معززین بھی صحت کی سہولیات کے فقدان پر خاموش اور لاعلم ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم 2019ء میں داخل ہوچکے ہیں ،عوام کے نمائندوں کو انگریز کے نظام کو ختم کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان بھر میں ضلع مظفر گڑھ کی طرح تحقیق کے لیے بجٹ ، ریسرچ اسکالرز،لائبریری اوردیگرسہولیات کافقدان ہے۔وجہ یہ ہے کہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کاشعبہ بیوروکریسی اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کے رحم کرم پر ہے جو تحقیق و ترقی (R&D)کو کارفضول سمجھتے ہیں۔ ہمارے طبی محقق ملک کی بیماریوں اورقوم کے مسائل صحت کے حوالے سے تحقیق کریں جوہمارے لیے مفیداورنظام صحت کو بہتربنانے میں مدد دے اور جن سے ملک وقوم کوواضح فائدہ ملے۔