بھارت میں عیدالاضحی قریب آتے ہی ہندو انتہا پسندوںنے قربانی کے جانوروں کے ٹرک لیجانے والوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ راجھستان میں ہندو انتہا پسندوں نے قربانی کے جانوروں کا ٹرک روک کر مویشی قبضہ میں لے لئے اور ٹرک کو آگ لگا دی۔ اسی طرح اترپردیش میں کئی مقاما ت پر جانورضبط کر لئے گئے ہیں۔ راجھستان کے سرحدی ضلع شری گنگا نگر کے سورت گڑھ علاقہ میں مویشیوں سے بھرے ٹرک کو روک کر اسے آگ لگائی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظفر نگر کے ایک ٹرک میں قربانی کے جانور لیجائے جارہے تھے کہ ہندو انتہا پسندوں نے اس کا پتہ لگتے ہی ٹرک سے جانور اتار ے اور اس پر تیل چھڑک کر آگ لگاد ی۔
اس دوران اطلاع پر پولیس وہاں پہنچی تاہم اتنی دیر میں ٹرک جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔ اترپردیش میں شاہ جہاں پور کے ھٹار علاقہ میں پولیس نے ناکہ بندی کر کے ایک ٹرک سے پندرہ گائے اور بارہ بیل ضبط کئے ہیں۔ پولیس کے مطابق گائے بیل سے لدا ایک ٹرک پورنپور جارہا تھا۔ گذشتہ ہفتے بھی ریلوے پھاٹک کے پاس ہندو انتہا پسندوںنے ایک ٹرک سے مویشی اتار کر اسے آگ کے حوالے کر دیا تھا۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے میرٹھ شہر میں مسجد میں نماز ادا کرنے والے مسلمانوں پر ہندو انتہاپسندوںنے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے ایک مسلمان موقع پر شہیدہو گیا ہے۔
میرٹھ کے جڑودا گائوں میں مسجد میں نمازیوں پر حملہ کے بعد پورے علاقہ میں زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جب تک مجرموں کو گرفتار نہیں کیاجاتاوہ جاں بحق ہونے والے نوجوان کا جنازہ نہیں اٹھائیں گے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مسلمان جڑودا گائوں کی مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اس دوران چھوچھائی گائوں کے تقریبا چار درجن کے قریب ہندو انتہا پسندوںنے مسجد پر دھاوا بول دیا اور نمازیوں پر سیدھی گولیاں چلائیں جس سے فریاد نامی ایک نوجوان موقع پر شہید ہو گیا جبکہ یٰسین نامی ایک مسلمان کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے جسے ہسپتال داخل کروادیا گیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد ایس ایس پی اونکار سنگھ کئی تھانوںکی پولیس اور دیگر فورسز کے ساتھ وہاں پہنچ گئے اور لوگوںکا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تاہم مسلمانوںنے اس دوران سخت احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کی۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندتنظیم بی جے پی نے مسلم کش فسادات میںملوث 63اہلکاروں کو انعام و کرام سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پانچ اکتوبر کو ایک اعزازی تقریب کا بھی انعقاد کیاجارہا ہے۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے مراد آباد میں فسادات کے بعد جیل جانے والے اپنے اہلکاروں کو جیل یاتری کا خطاب دیا جائے گا اورانہیں انعام کے طور پر مالا، شال اور علامتی نشان سونپا جائے گا۔
کانٹھ میں ایک مندر پر لگے لائوڈ سپیکر اتارنے کے دوران شروع ہونے والے مسلم کش فسادات کے الزام میں گرفتار ہونے والے بی جے پی اہلکاروں پر فسادات میں شامل ہونے، اقدام قتل ، املاک کو نقصان پہنچانے جیسی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ فسادات کا یہ واقعہ چار جولائی کو پیش آیا تھا جب مہا پنجایت بلائی گئی اورا س دوران بی جے پی اہلکاروںنے موقع پر پہنچنے والی پولیس پر بھی حملہ کر دیا تھا جس سے ضلعی مجسٹریٹ بھی بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ بی جے پی کی قیادت کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں کو انعام و کرام سے نوازنے پر’ ان دوسرے بی جے پی اہلکاروںکا حوصلہ بڑھے گاجو ابھی تک جیل میں ہیں۔ بھارت میںنریندر مودی حکومت نے ہندو انتہا پسندی پھیلانے کیلئے سرکاری ذرائع ابلاغ کو بھی کھلے عام استعمال کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔
Indian Media
گذشتہ روز آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ناگپور میں کیا جانے والا خطاب سرکاری ٹی وی دور درشن پر بھی لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس پر ایک نیا تنازعہ پیدا ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر سرکاری میڈیا کے بیجا استعمال کا الزام عائد کیا ہے جبکہ بی جے پی نے اس اقدام کی مدافعت کی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کانگریس ترجمان سندیپ ڈکشت نے بھاگوت کے خطاب کے ٹیلی کاسٹ کو خطرناک روایت قرار دیا اور کہا کہ آر ایس ایس ایک متنازعہ مذہبی اور سیاسی تنظیم ہے۔یہ ایک ایسی تنظیم نہیں ہے جو پوری طرح غیر جانبدار ہو۔ حکومت کا یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ کانگریس کے ایک اور ترجمان ابھیشیک مانو سنگھوی نے اس واقعہ کو انتہائی بدبختانہ ‘ سرکاری میڈیا کے بہیمانہ اور بیجا استعمال سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی حیرت انگیز، ناقابل یقین اور ایسا اقدام ہے جس کی پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
اس براڈ کاسٹ کے ذریعہ ایک بار پھر حقیقی کھیل منظر عام پر آگیا ہے اور حقیقی ریموٹ کنٹرول کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق سابق مرکزی وزیر مسٹر سلمان خورشید نے کہا کہ ہم آر ایس ایس کے ریکارڈ کو اپنے قومی مفادات اور توقعات کے مطابق نہیں پاتے۔ قومی ٹی وی پر آر ایس ایس جیسی تنظیم کے سربراہ کی تقریر نشر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہندستان میں پہلی بار آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تقریر کو دور درشن کے ذریعہ لائیو نشر کیے جانے پر آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے شدید رد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گرچہ یہ سرکاری مشنری کا غلط استعمال ہے لیکن اگر حکومت نے یہ دروازہ کھولا ہی ہے
تو اسے چاہیے کہ وہ ملک کی دیگر مذہبی اکائیوں کے ذمہ داروں کو بھی یہ موقع دے ورنہ یہ سمجھا جائے گاکہ حکومت پر ایک مخصوص فکر کا غلبہ ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مسلمانوں سے متعلق حالیہ متنازعہ واقعات پر خاموش رہنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کی اس خاموشی سے ایسے واقعات میں اضافہ ہو گا۔ یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ مودی کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے حامی مذہبی ہم آہنگی میں رخنہ ڈال دیں گے۔ دو ماہ قبل ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں بی جے پی کی اتحادی جماعت شیو سینا کے ایک رکن اسمبلی راجن وچار کو ایک مسلمان کیٹرر کے منہ میں زبردستی نوالہ ٹھونستے ہوئے دیکھا گیا
جو روزے سے تھا۔راجن وچار نے بعدازاں کہا کہ وہ کیٹرر کی مذہبی شناخت اور اس کی روزے کی حالت سے واقف نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو صرف یہ بتایا چاہتے تھے کہ کھانا کتنا برا ہے۔اس واقعے کے ردِ عمل پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی جس کے نتیجے میں بی جے پی کے ایک رکن نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اپوزیشن کے بعض سیاستدانوں کو پاکستان بھیج دیا جانا چاہیے۔ بعدازاں اس رکن نے اپنے اس بیان پر معذرت کر لی۔بی جے پی کے ہی ایک اور سیاستدان کے لکشمن نے مسلمان ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی قومی شناخت پر بھی سوال اٹھایا جبکہ وزیر اعظم کے ایک اتحادی نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ مودی کی قیادت میں بھارت ایک ہندو ملک بن سکتا ہے۔
کے لکشمن نے ثانیہ مرزا کو ریاست تلنگانہ کی خیرسگالی سفیر مقرر کیے جانے پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ثانیہ پاکستان کی بہو ہیں اور وہ تلنگانہ کی شناخت بننے کی اہل نہیں۔ ثانیہ مرزا پاکستانی کرکٹر شعیب ملک کی اہلیہ ہیں۔ متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان واقعات پر ردِ عمل ظاہر کرنے میں مودی کی ناکامی سے ان کی جماعت اور اس کی اتحادی دیگر تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے جارحانہ رویوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریے میں لکھا ہے: وزیر اعظم کو ایسے بیانات کے خلاف کھل کر سامنے آنا ہو گا تاکہ اقلیتوں کو یقین دلایا جا سکے کہ ان (مودی) کی حکومت کے خلاف ان (اقلیتوں) کے تحفظات بیجا ہیں۔ ان کی خاموشی سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہی ہو گی۔بھارت میں بدترین مذہبی فسادات ہوتے رہے ہیں، بالخصوص ہندو اکثریت اور مسلمانوں کے درمیان۔ وہاں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ سو ملین سے زائد ہے۔بی جے پی انتخابات میں زبردست کامیابی کے نتیجے میں مئی میں اقتدار میں آئی۔ اس جماعت نے معیشت کی بحالی کا نعرہ لگاتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا۔تاہم انتخابی مہم میں بھارت کی اکثریتی ہندو شناخت کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔