‘مظفرنگر فسادات پر ہندو انتہا پسندوں کو کوئی شرمندگی نہیں

Muzaffarnagar

Muzaffarnagar

مظفرنگر (جیوڈیسک) کسی شرمندگی کے بغیر جسبیر سنگھ مسکراتے ہوئے اپنے گاﺅں میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں ایک سال کے دوران سینکڑوں مسلمانوں کے گھربار چھوڑ کر چلے جانے سے آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتارہا ہے۔ اس نے اپنے ساتھی ہندو بزرگوں کے ساتھ ریاست اترپردیش کے حساس ضلع مظفرنگر میں جمع ہونے کے موقع پر کہا” تمام گندگی اب جاچکی ہے۔ گزشتہ سال سات ستمبر کو شروع ہونے والے فسادات کے نتیجے میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے، یہ تنازعہ ایک مقامی ہندو لڑکی کے علاج پر شروع ہوا جو پورے ضلع میں پھیل گیا۔

اگرچہ کچھ متاثرہ افراد اپنے گھروں کو لوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر بیشتر افراد پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اترپریدش میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کی تاریخ بہت پرانی ہے، جن میں بابری مسجد کو گرانے پر 1992 کے فسادات بھی شامل ہیں جس میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ گزشتہ سال کے فسادات بابری مسجد کے بعد سب سے جان لیوا ثابت ہوئے تھے جو کہ عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہی ہوئے تھے جن میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کامیاب ہوئی تھی۔

اگرچہ وزیراعظم نریندرا مودی اپنی مہم کے دوران مذہب کے موضوع کو نظرانداز کرتے رہے مگر بیشتر مسلمان اس شخص سے ہوشیر ہیں جو 2002 میں ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ تھا جب وہاں بدترین فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ نریندرا مودی اب اترپردیش سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمنٹ سے ایک ہیں، جبکہ بی جے پی دو اراکین پارلیمنٹ کو مظفرنگر فسادات میں مبینہ کردار پر حراست میں بھی لیا گیا تھاجن میں سے ایک سنجیو بالیان اب وزیر مملکت ہے۔ ہندوستان کے یوم آزادی پر مودی نے اپنے خاب میں فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ اس سے اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔

مگر مظفرنگر کی زمین میں ہندوﺅں کے مسلمانوں کے بارے میں جذبات کافی مختلف ہیں، جن میں سے بیشتر سوشلست ریاستی حکومت پر مسلمانوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں تاکہ انتخابی حمایت حاصل کی جاسکے۔ یہاں تک کہ دو ہفتے کے فسادات کے نتیجے میں اپنے گھروں سے محروم ہونے والے مسلمانوں کے دیئے جانے والا معاوضہ بھی جھگڑے کا سبب بنا۔ کتبہ نامی گاﺅں جہاں آٹھ مسلمان گزشتہ سال مارے گئے تھے، کہ ایک رہائشی ونود کمار نے کہا” وہ لوگ گرد سے اٹے سستے گھروں مٰں رہتے تھے مگر انہیں معتصب انتظامیہ نے ضرورت سے زیادہ معاوضہ دے دیا”۔ ونود کے چھوٹے بھائی امیت کمار پرجوش انداز میں بتاتا ہے کہ اس نے فسادات میں اپنے کردار پر پولیس اہلکاروں کو اسے پکڑنے کی نیم دلانہ کوشش کو کس طرح ناکام بنایا تھا۔

اس کا کہنا تھا” جب وہ مجھے پکڑنے کے لیے گھر آتے تھے تو میں ہر بار کھیتوں میں چلاجاتا تھا۔ نصف رات کو فرار مظفرنگر نئی دہلی سے چار گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے مگر یہاں گنے کے کھیتوں کا منظر اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو دیکھ کر لگتاہ ے کہ دارالحکومت بہت دور ہے۔ متعدد دیہاتی ابھی تک تشدد سے خوفزدہ ہیں جیسے لیساد میں جہاں ایک گلی میں مسلمانوں کے تمام گھر جزور طور پر تباہ ہونے کے بعد ویران پڑے ہیں، مقامی مسجد بھی کالی ہوچکی ہے۔

پینتیس سالہ سنجیدہ علی کو ابھی تک وہ رات یاد ہے جب وہ اپنے گھر سے بھاگ کر قریبی گاﺅں پہنچی۔ اس نے بتایا” ہمیں آدھی رات کو گھر بار چھوڑ کر اپنے گاﺅں کے پاس واقع جنگل کی جانب بھاگنا پڑا، ہم اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر بھاگے تھے جو ہمیشہ کے لیے ہم سے چھن گیا ہے۔ یہ خاندان اس وقت بھاگنے پر مجبور ہوا جب ہندو پڑوسیوں نے انہیں بتایا کہ قریبی گاﺅں میں فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹس سے غصہ پھیل رہا ہے اور اس کا بدلہ ان سے لیا جاسکتا ہے۔ سنجیدہ علی نے کہا”میں اب کبھی واپس جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔

وہ اس وقت مظفرنگر کے علاقے شاہ پور میں واقع ایک عارضی کیمپ میں مقیم ہیں اور ان کا کہنا ہے” میرے شوہر فسادات کے بعد سے کسی ملازمت کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ خاندان اب ایک کمرے کی جھونپڑی میں رہ رہا ہے جس کی پلاسٹک کی شیٹوں پر مشتمل چھت بانس کے ڈنڈوں پر ٹکی ہے اور یہ مون سون کی بارش کو اندر آنے سے روکنے میں ناکام رہتی ہے، جبکہ پانی کے لیے کافی دور ہینڈ پمپ پر جانا پڑتا ہے جہاں درجنوں خاندان بھی پانی بھرنے آتے ہیں۔ ایک مسلمان کپڑے بیچنے والا شخص مہتاب نے بتایا کہ گھر چھوڑنے کے بعد اسے اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس کا کہنا تھا” میں اپنے گھر کو یاد کرتا ہوں مگر میں اس کیمپ میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں کیونکہ یہاں ارگرد میرے اپنے لوگ ہیں۔ مودی کے چیف لیفٹننٹ امیت شاہ نے اپوزیشن پر الزام لگایا ہے کہ وہ انتخابی فائدے کے لیے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں، مگر نریندرا مودی نے مظفرنگر کے متعدد ہندوﺅں کو اس وقت مایوس کیا جب انہوں نے ہندوﺅں کی مدد کے وعدے کی بجائے عام ترقیاتی امور پر زیادہ توجہ دی۔ کتبہ کے ایک پولیس اہلکار کے مطابق” جب لوگون نے مودی کو ووٹ دیا تو انہیں توقع تھی کہ یہاں کے ہندوﺅں کے لیے وزیراعظم خاص طور پر کچھ کریں گے”۔