تحریر: محسن شیخ۔ حیدرآباد سندھ پشاور میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی یہ ظلم اور بربریت کی انتہا ہے، پھولوں کے شہر پشاور میں معصوم پھولوں کو بن کھلے ہی مرجھا دیا گیا ہے، وہ جو کل کے روشن مستقبل کے لیے نکلے تھے، وہ موت کے اندھیرے میں چلے گئے، ہر آنکھ اشکبار ہر دل غمزدہ میرے قلم پر لرزہ طاری ہے، اشکوں کی روانی ہے شہر پشاور میں ہر گھر میں صف ماتم بجھ گئی، ماں باپ اپنے جگر گوشوں کی زندہ لاشیں اٹھانے پر مجبور، پشاور شہر میں ہونے والی یہ ملک کی تاریخ کی بد ترین دہشت گردی ہے، جس میں ورسک روڈ پر آرمی پبلک اسکول کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا، اطلاعات کے مطابق 132 بچوں سمیت 144 افراد شہید ہوچکے ہیں، 245 زخمی ہیں،حملہ آوروں نے پورے اسکول کو خون میں نہلا دیا، مصوم پھولوں کے ماں باپ غم سے نڈھال ہیں ہر طرف خون کے قطرے سربریدہ لاشیں ہیں۔
مائيں دیوانہ وار بھاگتی رہی اپنے لخت جگروں کی تلاش میں، کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے، مائوں نے اپنے نھنے نھنے مننوں کو گرم جرسیاں پہنا کر اسکول بھیجا تھا، ان مائوں کو کیا پتہ تھا کہ آج انکے نھنے مننے پھول کفن پہنیں گے، آج انکی گودیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجڑ جائے گی، کیا مائیں بچے اس لیے پیدا کررہی ہیں، کہ انکو بچوں کو کسی بھی عمر میں بے دردی سے مار دیا جائے۔
جب تک یہ تحریر شائع ہوگی تب تک تو جنازے اٹھ چکے ہونگے۔ پرائمری سیکشن کے بچوں کے لیے چھوٹے کفن اور ہائی اسکول کے لیے نارمل سائز کی قبریں بھی آباد ہوچکی ہوگی، قبروں پر پانی چھڑکنے کے بعد چڑھائے گئے پھول بھی مرجھانا شروع ہوجائے گئے، مائیں اپنے بچوں کی تصویروں اور کپڑوں کو چوم چوم کر بے حال بیٹھی ہوگی، جنہیں انہوں نے صبح ہی سبز کوٹ سبز سویٹر لڑکیوں کو سبز چادر پہنا کر اسکول بھیجا تھا، دوپہر کا کھانا تیار کیا ہوگا، بچے گھر آتے ہی مائوں سے لپٹ کر کھانا مانگتے ہیں، مائیں دروازے تکتی رہے گئيں، بچے اسکول سے جنت چلے گئے۔
جنہیں دفنانے کے بعد مرد لوگ اپنے گھروں میں غمزدہ بیٹھے ہونگے، ویسے بھی سرد موسم میں مائوں کو پڑھائی سے زیادہ یہ فکر لا حق ہوتی ہیں کہ کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے، ان بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے، شہید سیدھے جنت میں جاتے ہیں، شہید کبھی مرتے نہیں ہیں، یہ کہہ کر دلوں کو تسلی دے لیتے ہیں، پشاور کی سردی ان بچوں کی قبروں کے اندر نہیں پہنچے گی،،اس سانحے پر حکومت ایک ہنگامی اجلاس طلب کرچکی ہوگی، جس میں انتہائی سخت الفاظ میں اس قتل عام کی مذمت کی جائیگی، طالبان کا نام لیا جائے گا، انہیں قوم اور ملک کا دشمن کہا جائے گا، انکو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم دہرایا جائے گا، اہم فیصلے کیے جائیں گے، مرحومین کے لیے دعائے مغقرت پڑھ دی جائے گی، لواحقین کو پانچ پانج لاکھ روپے دیے جائیں گے، زخمیوں کی حسب روایت عیادت کردی جائیں گی، سوگ کا اعلان کردیا جائے گا۔
Condemned
میڈل کلاس اور میٹرک کرنے والے ان نھنے پھولوں کا گناہ کیا تھا، اب انکی بخشش کے لیے دعائیں مانگی جارہی ہے، ہوسکتا ہے کسی نے 20 روپے اپنے کلاس فیلو سے ادھار لے کر ایزی لوڈ کرا لیا ہوں، کسی نے اپنے کلاس فیلو کو چپکے سے نقل کرا دی ہوں، کوئی کسی سے ادھار لے کر مکر گیا ہوں، کسی نے باتھ روم میں چپ کر پہلا سگریٹ پی لیا ہوں، کسی نے کسی سے کوئی وعدہ کر رکھا ہوں، خبروں میں آیا ہے کہ میٹرک کی الوداعی تقریب چل رہی تھی، اسی اثنا میں گولیوں کی بارشیں شروع ہو گئی،سبز کوٹ اور سبز جرسیاں خونوں میں تر ہو گئی، مگر چند روز بعد تو موسم سرما کی چھٹیاں پڑنے والی تھی، کئی بچوں نے چھٹیوں کے پروگرام ترتیب دیں رکھے ہونگے، کسی نے انٹر نیٹ پر چیٹ کرنے کا کسی نے وڈیوں گیمز کھیلنے کا تو کسی نے چھٹیوں کے بعد دوبارہ ملنے کا وعدہ کرلیا ہوگا۔ آخر 9 سے 16 سال کی عمر کے بچے اور بچیاں کیا گناہ کرسکتے ہیں۔
اب ان میں سے ایک بھی واپس نہیں آسکتا، کیونکہ وہ پشاور کی ایک ایسی سرد مٹی میں دفن ہیں، جو ایک کلاس روم ہے، جہاں کوئی کلاس فیلو نہیں ہوگا، اور وہاں کبھی بھی چھٹی کی گنٹی نہیں بجیں گی، تو بھائی لوگوں یہ جو مذمتیں ہوتی ہیں ان مذمتوں سے ہوتا کیا ہے ان اہم اجلاسوں میں ہونے والے اہم فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا، کیا ان مذمتوں سے اہم اجلاس میں ہونے والے اہم فیصلوں سے ان مائوں کی گودیں بھر جائے گي، جانے والے ننھے پھول واپس آجائے گے، وہ مائيں جو نو ماہ پیٹ میں رکھ کر تکلیف سہہ کر بچے کو جنم دیتی ہیں، پھر نازوں سے پرورش کرتی ہیں، اور پھر انکی گودوں کو اجاڑ دیا جائے، میرے شہر میں میری نسل لوٹنے والوں، پتہ ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے۔
سنا ہے سزائے موت پر پابندی کا خاتمہ ہوچکا ہے، یہ اقدام اچھا ہے، مگر رونا پھر اسی بات کا ہے، اس پر عمل درآمد کتنا ہوگا، اور کب ہوگا، مسٹر وزیراعظم قوم کو اب بیانات کی نہیں احکام کی ضرورت ہے، ملک کی تمام جیلوں میں قید 500 دہشت گردوں کو فوری طور پر سرعام پھانسیوں پر لٹکایا جائے، میاں صاحب آپ ملک کے وزیراعظم ہیں، ڈپٹی کمشنر نہیں آپ کے پاس اختیارات ہیں، طاقت ہیں، آپ باتیں مت کریں، اب یہ مذمتیں اور بیانات اچھے نہیں لگتے، حاکم کے فیصلے بولتے ہیں، حاکم نہیں بولتا، بیانات دینا اجلاس بیٹھانا بند کریں خدا راہ 500 دہشت گردوں کو ایگزیکیوٹ کروائيں، ان سب کو چوراہے پر لٹکا دیا جائے تو سب لوگ جرم کرنے سے ڈریں گے، اگر ان درندوں کو سزائیں نہیں ملے گی تو این جی اوز یورپی یونین آپ پر چڑھ جایئں گی، نہیں یہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
Death Penalty
یہ جو 141 بچے مارے گئے یہ انسان نہیں تھے، کیا یہ ہمارے چھوٹے بہن بھائی نہیں تھے، سزائے موت پر عمل کرو، جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی، انصاف کا بول بالا نہیں ہوگا، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ فوج اور حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ اب آپریشن ضرب عضب نہیں ان دہشت گردوں پر آپریشن ضرب قہر و غضب شروع کردوں، انکے حمائتیوں پر بھی ٹوٹ پڑو۔ چاہے وہ کسی بھی مسلک سے ہوں، کسی بھی سیاسی جماعت میں ہوں، ان کو عبرت کا نشان بنا دو تاکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں، ان کو دہشت ناک انجام تک پہنچا دو، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہوں، آمین،،