تحریر: مدیحہ طارق دسمبر 2014 بروز منگل پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کا حملہ اور معصوم بچوں کی شہادت جہاں اہلِ دل کے لیے غم و اندوہ کی وجہ ہے وہاں پوری انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے خاص کر ہم پاکستانیو ں کے لیے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے لا الہ الااللَٰہ محمد رسول اللَٰہ ﷺ کے نعروں کی گونج پر لبیک کہتے عزم و حوصلے کی مثال فولادی مسلمانوں کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا، ناممکن کو ممکن بنا دینے والے وہ مٹھی بھر مسلمان جنہوں نے شیطانی قوتوں کا ڈَٹ کر مقابلہ کیا اور شہداء کے خون کا ایک ایک قطرہ اس وطن عزیز کی بنیادوں میں ڈال دیا۔جب اُس وقت کا مسلمان اتنا قوی،اتنا پُر عزم اور اتنا دلیر ہوسکتا تھا کہ بے انتہا و بے شمار مخالف قوتوں کو منہ کے بل گرا کر اپنی الگ ریاست قائم کرنے پر ڈٹ گیا اور پھر ایسا ڈٹا کہ کوئی مشکل کوئی رکاوٹ اور کوئی قربانی بھی اسکے اٹھتے قدموں کو نہ روک سکی تو پھر آج کے مسلمان کو، وطن عزیز کے ایک ایک فرد کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے بے بس نظر آ رہے ہیں۔
آئے دن رونما ہونے والے انسانیت سوز سانحے ،خود کش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کب تک ماؤں کی گودیں اجاڑتے رہیں گے؟؟؟ کیا صرف رو دھو کر،باتیں کر کے، چند دن سوگ منا کر اور ہر سال ان کی یاد میں یوم سیاہ منا کر ہمارا فرض ادا ہو جاتا ہے؟؟؟ ٹی وی چینلز پر چند پروگرام کرنے اور دیکھنے کے بعد دکھی ہو کر بعد میں ہاتھ جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہونا اور پھر سے بے حس ہو کر اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہو جانا ۔۔۔یہ سب تو اب معمول بنتا جا رہا ہے۔آگ ہمارے گھر کی دہلیز پار کر کے آنگنوں میں اتر آئی ہے اور ہم بیٹھے آنسوؤں سے اسے بجھانے کی کوشش میں اپنے دل بہلا رہے ہیں۔
آخر کب تک ؟؟؟ کب تک یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟؟؟ آخر اب ہم کون سے ایسے سانحے کے منتظر ہیں جو ہمیں لڑنے کے لیے میدان میں اتارے گا؟؟؟ وہ کون سا ایسا دکھ ہو گا جو ہماری غیرت کو للکارے گا؟؟؟ معصوم بچوں کو اتنی سفاکی سے گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا ، کیا اس سے بھی بڑی کوئی اذیت ہو گی جو ہمیں غفلت کی نیندوں سے جگائے گی؟؟؟ آخر ہم کس قیامت کے انتظار میں ہیں جو ہم پر سے خود فریبی ، خود غرضی ،بے حسی اور لالچ جیسے لبادوں کو پھاڑ کر پھینک دینے کے لیے کافی ہوگی؟؟؟ ارے ہمارے جگر گوشوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،ہمارے معصوم ننھے منھے پھول پوری طرح کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے،ہمارے ملک کا سرمایا،ہمارا روشن مستقبل منوں مٹی تلے جا سویا۔اور کس چیز کے منتظر ہیں ہم؟؟؟ آخر ایسا کونسا جھٹکا ہو گا جو ہماری غیرت کو للکارے گا؟؟؟ آخر کب ہم اپنی آنکھیں کھولیں گے؟؟؟
جاگ جاؤ۔۔۔خدارا جاگ جاؤ۔۔۔اگر اب بھی نہ جاگے تو تباہی ہمارے نصیب میں لکھ دی جائے گی۔۔۔اگر اب بھی ہم میدان میں نہ اترے تو دنیا کے نقشے پر ہمارا نام و نشان تک نہ رہے گا۔۔۔یہ وقت کے یزید اور فرعون ہما ری بوٹی بوٹی نوچ کھائیں گے۔بس بہت کر لیں مصلحت کی باتیں۔بہت ہو گئے مزاکرات۔مرہم کے پھاہے زخموں پر لگائے جاتے ہیں مگر جو زخم ناسور بن جائیں ان کو کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے اور یہی عقلمندی کا تقاضہ بھی ہے۔۔۔ہمیں کیا ہو گیا ہے بڑے سے بڑا سانحہ بھی ہمیں بدلے بنا کیوں قصہ پارینہ بن جاتا ہے ۔ جو جس جماعت کا ہامی ہے وہ بچے گنوا کر بھی اُسی جماعت کے حق میں نعرے لگا رہا ہے ، تالیاں پیٹ رہا ہے۔۔۔اے لوگو اپنی طاقت کو سیاسی جماعتوں کی تفریق، ان کے باہمی اختلافات میں ضائع نہ کرو ۔۔۔جماعتوں کے مفادات کی لڑائی سے باہر نکل آؤ۔
اپنی صلاحیتیں مخالف جماعتوں کو نیچا دکھانے اور سیاست سے ایک دوجے پر الزام تراشی میں صرف کرنے کی بجائے متحد ہو کر اسلام دشمن عناصر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہو جاؤ۔۔۔یہ وطن عزیز ہماری بقا و سلامتی کی ضمانت ہے ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کا گہوارا ہے۔۔۔ آج وقت کی پکار ہے کہ آپسی رنجشوں اور اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اب متحد ہو کر دشمن کے سامنے اپنے فولادی سینے پھلائے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹ جانا چاہیے اور اگر اب بھی ہم نے وقت کی پکار پر لبیک نہ کہا تو تباہی اور بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔
آج ہر آنکھ اشکبار ہے ،ہر دل دکھ سے لبریز ہے ۔پوری قوم اس وقت سوالات کا امبار سروں پر اٹھائے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہی ہے۔آخر کب تک یہ ظلم و بربریت کا دور دورہ رہے گا؟؟؟ آخر کب تک بے گناہ مارے جاتے رہیں گے؟؟؟ آخر کب تک ظالم و جابر حکمرانوں اور مطلب پرست سیاستدانوں کے ہاتھوں ہم کٹھ پتلی بنتے رہیں گے؟؟؟ آخر کب تک غیر ملکی ایڈ کے نام پر ہم غلام بنے رہیں گے؟؟؟، بلیک میل ہوتے رہیں گے؟؟؟ آخر کب تک آستینوں میں پالے سامپوں کو ہم اپنے جگر کے ٹکڑے کھلاتے رہیں گے اور اپنا خون پلاتے رہیں گے؟؟؟ارے کب تک؟؟؟ کب تک ہم دوسروں کے سہارے تلاش کرتے رہیں گے؟؟؟ کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا جب تک ہم خود ہمت کر کے اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوں گے۔۔۔اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔فرمان باری تعالٰی ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ
Taliban
’’جیسی قوم ہو گی اس پر ویسے حکمران مسلط کر دیے جائیں گے ‘‘ زرا دیر کو سوچیے کہ اللہ کا فرمان ہے یہ جس کی صداقت میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا تو آج جو حالات ہیں کہ ذہن مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں دکھ اتنا ہے کہ دل پھٹنے لگتا ہے۔ کہیں اس کی وجہ خود ہم ہی تو نہیں ؟؟؟کیا ہم واقعی ایسی قوم بن گئے ہیں جن پر اللہ نے کرپٹ حکمران مسلط کر دیے ہیں؟؟؟داعش،طالبان اور اس لسٹ میں موجود ان گنت فرعونی اور یزیدی جماعتیں ہم پر عذاب کی طرح حاوی کر دی گئیں ہیں ؟ ؟؟کیا یہ ہماری لغزشیں اور کوتاہیاں ہی تونہیں جو آج ہمارے بچوں کو نگلنے لگی ہیں؟؟ ؟کیا یہ ہماری دین سے دوری اور بے راہ روی ہی بنیادی وجہ تو نہیں کہ وہ درندہ صفت ظالم،انسانوں کے بھیس میں وحشی بھیڑیے ہمارے آنگنوں میں کھِلے معصوم پھول نوچتے جا رہے ہیں؟؟؟۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ایسا ہی ہے۔
بہت سے لوگوں کو میں نے یہ کہتے سنا کہ ہم کہاں جائیں ،کس سے کہیں ،کوئی مسیحا نہیں ،کوئی پرسانِ حال نہیں،کوئی مخلص نظر نہیں آتا،کوئی نہیں جو ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکے،کوئی سننے والا نہیں ۔۔۔ارے میرے پیارو زرا خود کو پہچانو تو سہی،زرا سی دیر کو سوچو تو سہی کہ تم ہو کون،تمہارا مقام کیا ہے۔۔۔اے اللہ کے محبوب کی امت زرا غور تو کرو تم کس قادرِ مطلق کے ماننے والے ہو،وہ ذات جو کُن کہہ کر ساری کائنات کو تخلیق کر دے اس کے سامنے یہ دنیا کے مصائب کیا حیثیت رکھتے ہیں ایک بار کہہ کر تو دیکھو،اپنے دکھ ، اپنی تکلیفیں اس سے ویسے بیان تو کرو جیسے بیان کرنے کا حق ہے۔۔۔بے شک اس سے بہتر سامع کوئی نہیں جسے سنانے کے لیے بولنا بھی نہ پڑے ،بے شک اس سے بہتر کارساز کوئی نہیں جس کے حکم کے بغیر ایک زرہ بھی اِدھر سے اُدھر نہ ہو پائے،بے شک اس سے ذیادہ مخلص کوئی نہیں جو بخشنے کے بہانے دے کر اپنے بندوں کو بخش لے،بے شک اس سے بہتر کوئی جاننے والا نہیں جو دلوں کی باتیں بنا کہے جان لے۔ ’’ہماری تمام تر مشکلات اور مصائب کا حل صرف اور صرف لا الہ الااللَٰہ محمد رسول اللَٰہ ﷺ میں ہے۔‘‘
لا الہ الااللَٰہ ’’نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے‘‘ جب ہمارا ایمان اس حصے پر پختہ ہوجائے تو ہمیں کسی فرعون کے آگے جھکنے کی ضرورت نہیں ،کسی یزید کی بیعت کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ لافانی طاقت وہ قادر مطلق ہمارا رب حق و باطل کی لڑائی میں اپنے ماننے والوں کی مدد میں ہی غیبی امداد بھیجے گا اور مخالفین کو نیست و نابود کردے گا۔اسلامی تاریخ اسکی گواہ ہے اور قرآن و احادیث اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ محمد رسول اللَٰہ ﷺ’’محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘ جب ہم اس حصے کی گواہی دیں گے تو لازمی طور پر اللہ کے محبوب ﷺ کی سنت و احادیث کے مطابق اپنی زندگیوں کے ہر معاملے کو سنواریں گے اس طرح خود بخود اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جائیں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ایسی کسی آزمائش میں نہیں ڈالتا جس کو سہارنے کی اس میں طاقت نہ ہو۔
اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔اللہ رب العزت نے دکھ میں صبر اور نماز کی تلقین کی ہے ۔۔۔اللہ کے محبوب ﷺ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ اسلام ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔آؤ آج سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی اس طاقت کو استعمال میں لا کر دشمن کا قلع قمع کر دیں گے کہ وہ دوبارہ ہمارے آنگنوں کا رخ نہ کر سکے،آؤ سب مل کر وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس طرح متحد ہو جائیں کہ دوبارہ کسی کی جرات نہ ہو کہ ہمارے جگر گوشوں کو میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے،آؤ مل کر ایسے مسلمان بن جائیں جن کوصرف اپنے اللہ کی مدد درکار ہے نہ کہ کسی غیر کی جو چند ڈالر کے بدلے ہماری نسلوں تک کے سودے کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اے اللہ ہماری خطاؤں کو معاف کردے اور اس اندھیر نگری سے ہمیں اپنی رحمت سے نکال دے۔ہماری قوم ،ہمارے ملک ، ہماری نسلوں اور اپنے آپ کو ہم نے تیری پناہ میں دیا، تو ہمیں صراطِ مستقیم پر چلا دے اور حق کے لیے لڑنے کی توفیق عطا فرما بے شک صرف تو ہی ہے جو ہمیں ظلمت کے اندھیروں سے نکال سکتا ہے۔
اے وقت کے حکمرانو۔۔۔ کہاں سوئے پڑے ہو ؟؟؟ میرا چمن اُجڑ رہا ہے ، میرے پھول سُلگ رہے ہیں بچوں کی کھِلکھلاہٹ سے جو فضائیں ہنس رہی تھیں آج درو دیوار سے نوحے بِلک رہے ہیں میرے ننھے شہیدوں کا خون سہما ہوا ہے گھر اُجڑ گئے ہیں ، آنسو چھلک رہے ہیں ڈرو ظالمو ڈرو ماؤں کی سِسکیوں سے بیٹے جو گئے ہیں تو عرش ہِل رہے ہیں مہلت ملی ہوئی ہے ، خدارا سمبھل بھی جاؤ میرے رب کی پکڑ سے زرے بھی ہِل رہے ہیں یا رب رحم کر دے میرے وطن کو بچا لے اب سہا نہیں جاتا ، یہ فرعون جو کر رہے ہیں