میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) انو بان شہر میں ہوئے اس تازہ تشدد کے نتیجے میں کم از کم آٹھ مزید افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ ادھر معزول کیے گئے ممبران پارلیمان کی کوشش ہے کہ ان مظالم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رابطہ کیا جائے۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے ملک بھر کے تقریبا سبھی بڑے شہروں میں روز مرہ کی زندگی مفلوج نظر آ رہی ہے۔ ان مظاہروں کو کچلنے کی خاطر فوجی جنتا نے نہتے اور پر امن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔
میانمار کے وسطی شہر انوبان میں تشدد کے ایسے ہی ایک تازہ واقعے کے نتیجے میں کم ازکم آٹھ مظاہرین کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق جمعے کے دن وسطی شہر انوبان میں پرامن مظاہرہ کیا جا رہا تھا لیکن فوج نے اس احتجاج کو منشتر کرنے کی خاطر فائرنگ کر دی۔
اس صورتحال میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں معزول کیے گئے قانون دانوں نے غور کرنا شروع کر دیا کہ ملکی فوج کی اس بربریت کے خلاف بین الاقوامی عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ ان سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ فوجی جنتا انسانی حقوق کی پامالی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا اس فوجی تشدد کے خلاف اس بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
میانمار میں گزشتہ دو ماہ میں ان مظاہروں کے دوران فوج اور پولیس اہلکاروں سے جھڑپوں کے دوران کم ازکم دو سو چوبیس شہری مارے جا چکے ہیں۔ اس فوجی کریک ڈاؤن کے باوجود میانمار میں جموریت نواز شہریوں کی طرف سے مظاہروں اور احتجاجات کا سلسلہ ترک نہیں کیا گیا ہے۔
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب کائیو مو نے کہا ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاستی سطح پر ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں کو روکنے کی خاطر بین الاقوامی فوجداری عدالت مداخلت کرے۔ نیو يارک میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ معزول کیے گئے ممبران پارلیمان کی ایک کمیٹی اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کرنے کی کوشش میں ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے ماہرین نے میانمار میں جاری فوجی کارروائی پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے قتل، گرفتاریوں اور ہراساں کیے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان ماہرین نے اصرار کیا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی برداری کی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے۔
ادھر میانمار کی فوجی جنتا نے دہرایا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کی خاطر کارروائی کی جا رہی ہے۔ مزید کہا گیا گیا ہے کہ ان پرتشدد مظاہرین کے خلاف کارروائی ملکی اور بین الاقوامی قانونی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جا رہی ہیں۔ میانمار کی فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی انتخابات کراتے ہوئے ملک کا اقتدار سول حکومت کو سونپ دیا جائے گا۔
یورپی یونین کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ عوام کے خلاف تشدد کا مرتکب ہونے پر ذمہ دار افراد کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ میانمار کی فوج سے منسلک اہم عہدیداروں کے خلاف پابندیاں کی ایک تجویز تیار کر لی گئی ہے اور متوقع طور پر پیر کے دن یہ پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد عالمی برداری کی طرف سے اسے پہلا ایسا قدم قرار دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے میانمار کی فوجی جنتا پر دباؤ دیا جا سکے گا۔