میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی نوبل انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے وکیل مِن مِن سو نے بتایا کہ فوجی حکومت نے سوچی کے خلاف قدرتی آفات سے نمٹنے کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کا ایک نیا الزام عائد کیا ہے۔
وکیل کے مطابق سماعت کے دوران سوچی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے وکلاء سے براہ راست ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم عدالت نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
سوچی کے خلاف پہلے ہی حکومتی راز افشا کرنے کا مقدمہ قائم ہے، جس میں انہیں چودہ برس کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ان کے خلاف دائر مقدمے کی اگلی پیشی چھبیس اپریل کو مقرر کی گئی ہے۔
میانمار میں پہلی فروری کو فوج نے منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار سے فارغ کر کے حکومت پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
فوجی حکومت کے مخالفین نے کہا ہے کہ ملک کے مقامی مذہبی رواج کے مطابق شروع ہونے والے نئے سال کے موقع پر مختلف طبقوں کے ملبوسات پہن کر مظاہرین کریں گے اور خصوصی عبادات میں بھی شرکت کی جائے گی۔ مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فوجی حکومت کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کی شدت کو کم نہیں ہونے دیں گے۔
میانمار میں روایتی سال کی چھٹی عوام میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس روز تقریبات کا آغاز عبادات سے کیا جاتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار عقیدت کے ساتھ عبادت خانوں میں جا کر مہاتما بدھ کی مورتیوں کو صاف کرتے ہیں۔
فوجی حکومت کے خلاف ایک تنظیم کی لیڈر آئی تھنزر کا کہنا ہے کہ تھنگیان عوام کے نزدیک بہت اہم ہے اور فوجی حکومت اس کے ساتھ کوئی زیادہ نسبت نہیں رکھتی۔ میانمار میں نئے مذہبی سال کی چھٹیاں تیرہ سے سترہ اپریل تک ہیں۔
جمہوری اداروں کی بحالی کی عوامی تحریک میں سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیوں میں سات سو چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں چھیالیس بچے بھی شامل ہیں۔ ان ہلاکتوں میں بیاسی افراد گزشتہ جمعے کو باگو نامی قصبے میں مارے گئے تھے۔ یہ قصبہ سب سے بڑے شہر ینگون کے شمال مشرق میں ستر کلو میٹر دور واقع ہے۔
پیر کو منڈالے اور تامو شہروں میں مظاہرین پر سکیورٹی دستوں کی فائرنگ کرنے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ ان شہروں سے ہلاکتوں اور زخمیوں کی اطلاعات ابھی موصول نہیں ہوئیں ہیں۔