میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار سن 1948 میں بطور آزاد ریاست دنیا کے نقشے پر ابھرا، جس کے بعد سے ملکی فوج تین مرتبہ بغاوت کر چکی ہے۔ بغاوتوں کے اس عمل نے ملکی سیاست اور اقتصادیات پر فوج کے کنٹرول کو بدستور قائم رکھا ہوا ہے۔
رواں ہفتے کے دوران میانمار کی عوام نے حالیہ فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کے دوران اپنے غم اور غصے کا اظہار جاری رکھا۔ اس ملک کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو پہلی فروری کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے ختم کر دیا تھا۔
بدھ دس فروری کو ملک کے نوجوان مظاہرین نے ایک مظاہرے میں فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے سینیئر ترین فوجی عہدیدار جنرل من آنگ ہلینگ کے فرضی تابوت کی آخری رسومات بھی ادا کی۔
ان مظاہروں میں احتجاج کرنے والے فوجی آمریت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی حمایت اور زیرِ حراست خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی رہائی کے مطالبات بھی کرتے رہے۔
میانمار کی فوج ملک میں ہر جگہ موجود ہے اور دیکھے بغیر بھی اس کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ اسی قوت کی وجہ سے ملکی سیاسی صورت حال اور معاشی حالات پر کنٹرول کی بنیاد پر بتائی جاتی ہے۔
جرمنی کی ایرلانگن نیورمبرگ یونیورسٹی سے منسلک میانمار کے معاملات کے ماہر مارکو بنٹے نے فوج کی اس قوت کے تناظر میں اسے ‘ریاست کے اندر ایک اور ریاست‘ قرار دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور تجزیہ کار یوشیرو ناکانیشی کا کہنا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں معلومات انتہائی محدود رکھی جاتی رہی ہیں۔ فوج نے اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے ملکی دارالحکومت ینگون سے نیپیدا منتقل کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ سن 1948 سے شروع ہونے والی فوجی بغاوتوں اور حکومتی عمل میں موجودگی کی وجہ سے میانمار میں فوج کو اقتدار کا ایک انتہائی طاقتور عنصر قرار دیا جاتا ہے اور کے اثرات بدستور دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس ادارے نے برسوں کئی اقسام کے چیلنجز کا سامنا کیا۔ اس میں وسیع پیمانے پر عائد کی جانے والی بین الاقوامی پابندیاں بھی شامل تھیں لیکن ان کا فوجی جرنیلوں نے کوئی اثر نہیں لیا تھا۔
مارکو بنٹے کا خیال ہے کہ فوج کا اثر و رسوخ اس ملک کی جڑوں تک اترا ہوا ہے اور اس کا قیام سن 1941 میں لایا گیا تھا جبکہ آزاد ریاست سن 1948 میں قائم ہوئی تھی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ میانمار کی فوج ملک بننے سے پہلے اپنا وجود پا چکی تھی اور اس کی وجہ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے جنگی عزائم کا سامنا تھا۔
میانمار کی آزادی کے ہیرو آنگ سان قرار دیے جاتے ہیں، جو جاپانی استعماریت کے حامی تھے لیکن بعد میں اتحادی قوتوں کے حامی بن گئے تھے۔ وہ بھی فوج کے ادارے کو ناگزیر خیال کیا کرتے تھے۔
آنگ سان کو سن 1948 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ فوج کا نصب العین آج بھی مستعمل ہے۔ سن 1941 میں رکھے جانے والے نصب العین کے الفاظ ‘ ایک خون، ایک آواز، ایک کمان‘ ہیں۔
آزادی کے بعد اس ریاست کو کمیونسٹ قوت سے برسرپیکار ہونا پڑا۔ ملکی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اس فوج کو بارہا مسلح مزاحمتی تحریکوں کا سامنا بھی رہا۔
مارکو بنٹے کہتے ہیں کہ فوج نے یہ تاثر برقرار رکھا ہوا ہے کہ ملک کو مسلسل دشمن طاقتوں نے گھیر رکھا ہے اور اس کی سلامتی فوج کی ذمہ داری ہے۔ میانمار کی فوج میں افسران اور سپاہیوں کی مجموعی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے۔
جنرل نی وِن نے سن 1962 میں پہلی مرتبہ حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے برمی سوشلزم کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جو انجام کار ناکامی سے دوچار ہوئیں لیکن جنرل نی وِن یقینی طور پر ملکی سیاسی نطام تبدیل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے تھے۔
ان کا متعارف کیا ہوا نظام بدستور ملک پر نافذ ہے۔ اس باعث ریاست اور فوج کے درمیان ایک مضبوط تعلق استوار ہوا۔ اس نظام کی پیداوار اور ایک طرح سے نشان موجودہ جنرل مِن آنگ ہلینگ خیال کیے جاتے ہیں۔
جنرل مِن آنگ ہلینگ نے رواں برس ریٹائر ہو جانا ہے اور اگر سویلین حکومت برقرار رہتی تو ریٹائرمنمٹ کے بعد ان کا ملک میں کوئی عملی کردار بظاہر موجود نہیں تھا جبکہ روایت یہ ہے کہ فوج سے رخصتی کے بعد اعلیٰ افسران کو سویلین عہدوں پر متعین کر دیا جاتا ہے۔
سن 1988 میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت نیشنبل لیگ برائے ڈیموکریسی میں آنگ سان سوچی کے علاوہ تمام اساسی اراکین ریٹائرڈ فوجی افسران تھے۔ سیاسی حکومت کی بحالی کے بعد سوچی کی نگرانی میں قائم حکومت نے سن 2017 میں ایک قانون منظور کیا تھا اور اس کے تحت فوج کے افسران کی سول عہدوں پر تعیناتی کو محدود کر دیا گیا۔
موجودہ فوجی بغاوت کی ایک وجہ یہ قانون بھی قرار دیا جاتا کہ سینیئر ترین جرنیل ہلینگ کا ریٹائرمنٹ کے بعد کا دور کسی حد تک تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ اس قانون کی منظوری سے فوج کی سرپرستی میں منظور ہونے والے سن 2008 کے دستور کو چیلنج کر دیا گیا تھا۔
پہلی فروری کی فوجی بغاوت نے فوج کو سول حکومت سے دور رکھنے کے عمل میں رکاوٹ ضرور کھڑی کر دی ہے لیکن یہ عارضی بھی ہو سکتی ہے۔