‘میانمار کا مسئلہ آسیان کی صلاحیتوں کا امتحان ہے’

ASEAN

ASEAN

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) آسیان کے سربراہوں کی کانفرنس برونئی کے بندر سیری بیگاوان میں منگل کو شروع ہوئی۔ میانمار نے ناراضگی میں اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا کیونکہ فوجی جنٹا کے سربراہ کو اس کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔

جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم (آسیان) کی سربراہی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں نہ تو تنظیم کے چیئرمین برونئی نے اور نہ ہی اس دس ملکی بلاک کے سکریٹری جنرل نے میانمار کی عدم شرکت کے حوالے سے کوئی ذکر کیا۔

آسیان نے 15اکتوبر کو ایک غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے میانمار کے فوجی جنٹا کے سربراہ من آنگ ہلینگ کو سربراہی کانفرنس میں شرکت کی اجازت دینے سے منع کردیا تھا۔ آسیان کا کہنا تھا کہ من آنگ ہیلنگ نے ملک میں خونریز سیاسی بحران کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کے تحت میانمار میں امن مساعی شروع کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ تاہم وہ اس میں ناکام رہے۔

خیال رہے کہ فوج نے یکم فروری کو میانمار کی سویلین حکومت کو معزول کرنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوکی سمیت ان کی جماعت کے متعدد رہنما اس کے بعد سے قید میں ہیں۔ بغاوت کے بعد فوج کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

من آنگ ہیلینگ کو شرکت سے منع کرنا ایک غیر معمولی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ آسیان کو بالعموم ایک غیر موثر تنظیم سمجھا جا تا رہا ہے۔ فوجی جنٹا نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی نکتہ چینی کی تھی کہ رکن ملکوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اس تنظیم کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔

فوجی جنٹا کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے آسیان کے خصوصی نمائندہ کو معزول رہنما آنگ سان سوکی سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد آسیان نے فوجی جنٹا کے سربراہ کو سربراہی کانفرنس میں مدعو نہیں کرنے کا غیر معمولی فیصلہ کیا۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق دو سفارت کاروں نے بتایا کہ برونئی نے آسیان کی میٹنگ میں شرکت کے لیے ایک ”غیر سیاسی نمائندہ” کے طورپر میانمار کی سینئر سفارت کار چان آئی کو مدعو کیا تھا تاہم وہ اس میں شریک نہیں ہوئیں۔

فوجی جنٹا کے ترجمان نے کہا کہ ایک کم حیثیت شخص کو کانفرنس میں بھیجنے سے ”ملک کی خود مختاری اور امیج پر اثر پڑسکتا تھا” اس لیے میانمار کا کوئی نمائندہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔

میانمار کی فوج نے من آنگ ہلینگ کو سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دینے کے خلاف پیر کی دیر رات چیلنج کیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ اس نے برونئی کو مطلع کردیا ہے کہ میانمار صرف اسی صورت میں تین روزہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کرے گا جب من آنگ ہیلنگ یا کسی اعلی سطحی وزارتی وفد کو شرکت کی اجازت دی جائے گی۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں جنوب مشرقی ایشیائی امور کے ماہر ایرون کونلے کا خیال ہے کہ فوجی جنٹا کے سربراہ کو کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہ دینا ”ایک انتہائی اہم” بات ہے۔ انہوں نے کہا،”یہ آسیان کی جانب سے کسی رکن ملک کے خلاف عائد کردہ اب تک کی سب سے بڑی اور اہم پابندی ہے اور یہ پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کہ فوجی جنٹا نے ہدایت پر عمل نہیں کیا تھا۔“

مشاہدین کا تاہم خیال ہے کہ آسیان اس سے آگے نہیں جائے گا اور میانمار کی رکنیت کو معطل کرنے جیسے اقدامات سے گریز کرے گا اور اس بات کا بھی بہت کم امکان ہے کہ آسیان کانفرنس کے فیصلے سے فوجی جنٹا کے طریقہ کار میں فوری طورپر کوئی تبدیلی آجائے۔

دریں اثنا تھائی لینڈ کے وزیر اعظم پرایوتھ چان اوچھا نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی حکومت میں میانمار کی صورت حال آسیان کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔

اس تین روزہ ورچوئل میٹنگ میں امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی رہنماوں کے شرکت کی بھی توقع ہے۔ آسیان میں برونئی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاوس، ملائشیا، میانمار، فلپائن، سنگا پور، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔ میانمار اس گروپ میں سابقہ فوجی حکومت کے دوران سن 1997میں شامل ہوا تھا۔