میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی راکھین ریاست میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی دوسرے برس میں داخل ہو گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی ختم کی جائے۔
واضح رہے کہ جنوری 2019 میں علیحدگی پسندوں کے خلاف عسکری آپریشن کے تناظر میں اس ریاست میں انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کورونا وائرس کی متعدی وبا کے دور میں عام شہریوں کو معلومات کی فراہمی نہایت ضروری ہے اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے عام شہری شدید نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔
راکھین میں مقامی بدھ آبادی کے لیے زیادہ خودمختاری کی مسلح لڑائی میں مصروف تنطیم آراکان آرمی کے خلاف ملکی فورسز نے جنوری 2019 میں آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس آپریشن کے تناظر میں گزشتہ برس جون کی اکیس تاریخ کو راکھین اور ہم سایہ ریاست چِن میں کئی رہائشی علاقوں کے لیے انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی تھی۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے مقامی آبادی کو اس تنازعے سے متعلق معلومات کا حصول مشکل تر بنا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس انٹرنیٹ بندش کو ‘دنیا کا سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن‘ قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ لِنڈا لاخدیر کے مطابق، ”عالمی وبا کے دوران عام افراد کے لیے معلومات کی ترسیل اشد ضروری ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ اب تک میانمار میں 287 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جب کہ اس وبا سے جڑی ہلاکتیں چھ ہیں، تاہم ماہرین خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ کم اعداد و شمار اصل میں ٹیسٹ نہ ہونے کے سبب ہیں اور حقیقیتِ حال اس سے کہیں مختلف ہو سکتی ہے۔
میانمار میں ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ فی الحال کم از کم رواں برس اگست تک، آٹھ رہائشی علاقوں میں انٹرنیٹ کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ ان کمپنیوں کے مطابق حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بندش ‘غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام‘ کے لیے نافذ کی گئی تھی۔