رنگون (جیوڈیسک)میانمار میں مسلم آبادی پر حملوں کے تناظر میں مزید 3 قصبوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، فسادات میں ہلاک افراد کی تعداد 42 ہو گئی۔ میانمارمیں جاری نسلی فسادات ملک کے سب سے بڑے شہر رنگون کے قریب پہنچ گئے ہیں جس کے بعد مزید تین شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
مشتعل افراد نے مکانوں کو لوٹا اور مساجد کو نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے مطابق میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسی اپنائی ہے۔ مسلمانوں تک امداد نہیں پہنچانے دی جا رہی جس سے میانمار میں انسانی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق میکٹائل کے مرکزی قصبے میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔
جہاں چالیس افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ ادھر، امریکا نے ایک ہفتے پہلے شروع ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے باعث امریکی شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ میانمار کے متاثرہ علاقوں میں سفر سے گریز کریں۔ علاوہ ازیں اقوام ِمتحدہ کے ایک اعلی عہدیدار نے کہا ہے کہ برما میں ہونے والے حالیہ فسادات واضح طور پر بدھ قوم کی جانب سے مسلمان اقلیت کے خلاف تھے۔
برما کے لیے اقوام ِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خاص مشیر وجے نمبیار نے حال ہی میں برما کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے برما میں مقامی عہدیداروں اور ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ تھائی لینڈ سے فون کے ذریعے نیویارک میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں وجے نمبیار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی عارضی پناہ گاہوں کا دورہ کیا جہاں 9000 کے قریب افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔
ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ وہ میختیلا شہر کے وسطی علاقوں میں پھوٹنے والے فسادات اور اپنے گھروں پر ہونے والے حملوں کے بعد جس میں درجنوں مسلمان ہلاک ہوئے یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ وجے نمبیار نے ان حملوں کو سفاک حملے قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے ظلم کا نشانہ بنائے جانے والے ان لوگوں کی تلافی کا مداوا کرنے کو بھی کہا ہے۔