میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) سلامتی کونسل میانمار میں فوجی کریک ڈاؤن روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہی ہے تاہم چین فوجی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی مخالفت کر رہا ہے۔
میانمار کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی کرسٹین شرینر برگنر نے خبردار کیا ہے کہ اگر سلامتی کونسل نے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے نہ کیا تو میانمار خانہ جنگی اور خونریزی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری کوئی ایکشن لینے کی بجائے میانمار کی فوجی حکومت سے بات چیت کے انتظار میں رہی تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ سلامتی کونسل میں چین نے اب تک اس مسئلے پر کڑے تادیبی اقدامات لینے کی بجائے احتیاط سے کام لینے کا موقف اپنایا ہوا ہے۔
چین کے مطابق یہ موقف اُس کی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی روایتی پالیسی کا حصہ ہے۔
چین کے میانمار میں کاروباری مفادات ہیں اور چین کی کمپنیوں نے وہاں کے مختلف شعبوں میں خاصی سرمایاکاری کر رکھی ہے۔
بیجنگ حکومت تیل اور گیس کی ترسیل کے لیے ایک لمبی پائپ لائن بھی بچھا رہی ہے، جو چین سے میانمار کے راستے بحرِ ہند تک جائے گی۔ یہ منصوبہ چین کی ‘ون بیلٹ، ون روڈ‘ پالیسی میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ میانمار کے اندر چین کو فوجی جنتا کے بڑے اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے باعث لوگوں میں بیجنگ حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
میانمار میں پچھلے دو ماہ کے دوران 535 لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں درجنوں بچے بھی شامل ہیں۔
پچھلے ہفتے کے دوران ملک میں سو سے زائد لوگ مارے گئے لیکن چین کی طرف سے کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ بلکہ ہفتے کے دن میانمار نے مسلح افواج کا دن منایا اور اس موقع پر چین ان چند ممالک میں شامل تھا، جنہوں نے عسکری تقریبات میں شرکت کے لیے اپنا نمائندہ بھیجا۔
چین کی اس بظاہر ‘بے حسی‘ پر حالیہ دنوں میں مظاہرین نے چین کی درجنوں فیکٹریوں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگا دی اور نقصان پہنچایا۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں چین کے سفیر نے کہا کہ میانمار میں اقوام عالم کی ترجیح بیرونی کمپنیوں کا تحفظ یقینی بنانا ہونا چاہیے۔
مغربی مبصرین الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کو ‘کبھی بھی انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کی پرواہ نہیں‘ رہی۔ تاہم چین کی خواہش ہو گی کہ میانمار میں حالات مستحکم ہوں تاکہ اس کے معاشی مفادات کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
میانمار میں فوج نے یکم فروری کو منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تب سے ملک کے مختلف حصوں میں فوج کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور بے چینی پھیل رہی ہے۔ احتجاج کچلنے کے لیے فوجی جنتا پر طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔