میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) فوج نے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر کے مظاہروں پر ربڑ گولیاں چلائیں اور اور آنسو گیس کے گولے داغے۔
ملک میں احتجاج کی لہر کو روکنے کے لیے فوج نے ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن منگل کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد پھر بھی احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکلی۔
ریلیوں کے شرکا نے جمہوری حکومت کی بحالی کے حق میں بینر اٹھا رکھے تھے اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
فوجی حکام نے رات گئے نئے احکامات جاری کیے، جن کے مطابق پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد کے اکھٹے ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس طرح عملی طور پر فوجی حکومت نے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ رات آٹھ بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سب سے بڑے شہر ینگون اور دوسری بڑے شہر منڈالے میں ہزاروں افراد کی فوج کی قیادت کے خلاف مظاہرے کچلنے کے لیے ہیں۔ ان مظاہروں کا سلسلہ میانمار میں گزشتہ ویک اینڈ سے شروع ہوا۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے منڈالے میں کم از کم ستائیس افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ینگون میں کی گئی گرفتاریوں کے بارے میں کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب حکومتی ملازمین، ڈاکٹروں اور اساتذہ نے بھی فوجی حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ منتخب جمہوری حکومت کی قیادت اور پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت کے اراکین پارلیمان یکم فروری سے فوجی حکام کی حراست میں ہیں۔
فوجی حکومت کی قیادت کرنے والے سینیئر ترین کمانڈر جنرل مِن آنگ ہلینگ نے پیر کی شام ٹیلی وژن پر خطاب میں فوجی اقدام کا دفاع کیا۔میانمار میں فوجی جنتا کے خلاف مظاہروں میں تیزی
انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور مبینہ ووٹ فراڈ ہی حکومت کا تختہ الٹنے کی وجہ بنا۔