میانمار فوجی حکومت کے سربراہ آسیان سمٹ سے باہر کر دیے گئے

Aung Hlaing,

Aung Hlaing,

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) آسیان سمٹ میں میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کی جگہ ایک غیر سیاسی نمائندے کو شرکت کا موقع دیا جائے گا۔ آسیان تنظیم نے فوجی حکومت کے کریک ڈاؤن کے سلسلے پر بھی مایوسی ظاہر کی ہے۔

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کا سربراہ اجلاس رواں ماہ کے آخری ہفتے میں چھبیس سے اٹھائیس اکتوبر تک برونائی کے دارالحکومت بندر سری بھگوان میں ہو گا۔ اس تنظیم نے ہفتہ سولہ اکتوبر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ سربراہ اجلاس میں میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کو شرکت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔ ان کی جگہ میانمار سے ایک غیر سیاسی نمائندے کو مدعو کیا جائے گا۔

تنظیم نے واضح کیا کہ وہ اس فیصلے پر مجبور ہو گئی ہے کیونکہ میانمار کی فوجی حکومت پرامن نظام الاوقات کے ساتھ وابستہ رہنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں یقین دہانی کرانے کے باوجود ناکام رہی ہے۔ فوجی حکومت نے آسیان کو یہ یقین دہانی رواں برس یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد کرائی تھی۔

میانمار میں فوجی حکومت کے سربراہ کے خلاف عوامی جلوسوں میں خاص طور پر مذمتی نعرے بازی کی جاتی ہے

آسیان کے مطابق اب تک فوجی حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں نے جمہوری حکومت کی بحالی کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں اور جلسوں پر فائرنگ کر کے ایک ہزار سے زائد افراد کو ہلاک بھی کر دیا ہے اور سینکڑوں افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے حاصل کی گئی ہے۔

فوجی حکومت کی بغاوت سے ایک دہائی تک جاری رہنے والے سویلین حکومت کے دور کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ فوجی حکومت کے اس اقدام کی عالمی برادری نے مذمت کے ساتھ ساتھ کئی پابندیوں کا بھی نفاذ کر دیا ہے۔

آسیان تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک ہنگامی میٹنگ جمعہ پندرہ اکتوبر کو برونائی میں ہوئی اور اسی میں میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کو سربراہ اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ لیا گیا۔

وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بعض رکن ملکوں کی جانب سے کہا گیا کہ فوجی حکومت کو داخلی امور کو بہتر کرنے اور امن بحال کرنے کا موقع ملنا ضروری ہے۔ وزراء کی میٹنگ میں ہی ایک غیر سیاسی نمائندے کو شرکت کی دعوت دینے کا فیصلہ ہوا۔

برونائی حکومت نے میٹنگ میں بتایا کہ فارغ کی جانے والی حکومت کی بڑی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی کے چند اراکین نے تنظیم کو کانفرنس میں شریک ہونے کی درخواستیں ارسال کی تھیں۔

پہلی فروری کو فوجی بغاوت کے بعد آسیان تنظیم نے فوری طور پر ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ اپریل میں منعقدہ اجلاس میں فوجی حکومت کے نمائندے نے پرامن داخلی حالات کے ساتھ ساتھ اگلے برس الیکشن کرانے کا وعدہ دیا تھا اور اس پر مناسب انداز میں عمل پیرا نہ ہونے پر آسیان نے مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا۔

تنظیم کے مطابق اب تک کی پیش رفت ناکافی ہے۔ انتخابات بھی سن 2023 میں کرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں آسیان کے میانمار کے لیے مقرر خصوصی ایلچی ایروان یوسف کا دورہ بھی مسلسل ملتوی ہو رہا ہے۔

خصوصی سفیر مقید سیاسی لیڈر آنگ سان سوچی اور دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں سے ملاقات پر اصرار کر رہے ہیں لیکن بظاہر اس کی اجازت میسر نہیں ہے۔ فوجی حکومت کے ترجمان نے سفیر کے دورے پر اعتراض نہیں کیا لیکن انہیں سوچی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔

آسیان کا موجودہ فیصلہ حیران کن قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ تنظیم مکالمت پر یقین رکھتی ہے اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے بھی اجتناب کرتی ہے۔ اس فیصلے کو عالمی برادری کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔