میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں فوجی حکومت کے اقتدار پر قبضے نے ملک کو انتشار میں دھکیل دیا ہے۔ فوجی جنتا ملکی حالات پر کنٹرول کے لیے جتنی بھی کوشش کر لے حقیقت یہ ہے کہ عوامی زندگی بُری طرح مفلوج ہو چُکی ہے۔
میانمار کی فوج نے پہلی فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار سے علحیدہ کیا اور ملک کے تمام شعبوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ تاہم تب سے ہی یہ امر واضح تھا کہ وہ میانمار کے ریلوے نظام تک کو نارمل طریقے سے نہیں چلا پائے۔ یہاں تک کہ ٹرینیں وقت پر اپنی نقل و حرکت نہیں کر پا رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں فوجی حکومت کے خلاف سب سے پہلے سرکاری ریلوے کے کارکنوں نے احتجاج کیا اور ہڑتال کا اعلان کیا۔
میانمار ریلوے کے کارکنوں کے علاوہ ہیلتھ ورکرز نے بھی فوجی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور سرکاری طبی مراکز میں خدمات انجام دینا بند کر دیں۔ بہت سے سول سرونٹس اور سرکاری اور نجی بینکوں کے ملازمین اپنے دفاتر سے غیر حاضر ہو گئے۔ تعلیمی درسگاہیں اور یونیورسٹیاں فوجی جنتا کے خلاف مزاحمت کے اظہار کا گڑھ بن گئیں۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں، تعلیمی نظام ٹھپ ہو گیا اور اساتذہ ، والدین اور طالبعلوں سبھی نے سرکاری اسکولوں کا بائیکاٹ کر دیا۔میانمار میں فوجی کارروائی کے خلاف سلامتی کونسل کی مذمتی قرارداد منظور
میانمار میں فوجی جنتا کے حکومت پر قبضے کے ایک سو دن گزرنے کے بعد حکمران جرنیلوں کی طرف سے تمام معاملات پر کنٹرول کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ انہوں نے تمام محاذوں پر حالات کو قابو کر لیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور پر ان کی جزوی کامیابی یہاں تک محدود ہے کہ انہوں نے میڈیا کی حد تک اور سڑکوں پر مظاہروں کو کچل دیا ہے۔ آزاد ذرائع سے موصولہ اعداد و شمارکے مطابق میانمار میں عوامی مظاہروں کے دوران اب تک 750 مظاہرین اور راہگیر مارے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشل باچیلٹ نے ایک ماہ پہلے ہی میانمار کی صورتحال کو سنگین قرار دیا تھا۔ باچیلٹ کا کہنا تھا،” میانمار کی معیشت، تعلیم اور صحت کا بنیادی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے جس سے لاکھوں لوگ روزگار ، بنیادی سماجی خدمات اور غذا کے تحفظ سے محروم ہو چُکے ہیں۔
ادھر میانمار کی فوجی جنتا کو بھی عسکری چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص طور سے مزاحمتی سرحدی علاقوں میں جہاں نسلی اقلیتی گروپ سیاسی طاقت رکھتے ہیں اور ان کی اپنی گوریلا فورسز بھی ہیں۔ جنگی صورتحال کی سختیاں جھیلے ہوئے دو ایسے تجربہ کار گروپ شمال میں کاچن اور مشرق میں کارن میں ہیں۔ ان دونوں گروپوں نے میانمار کی عوامی احتجاجی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے لڑائی تیز تر کر دی ہے۔ وہ میانمار کی فوج تتماداؤ کا زیادہ قوت کے ساتھ مقابلے بھی کر رہے ہیں اور فضائی حملے بھی کررہے ہیں۔