میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی فوجی جنتا نے سن 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر برطرف سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
میانمار کے وفاقی الیکشن کمیشن کے چیئرمین تھیئن سوئے نے جمعے کے روز کہا کہ نومبر 2020 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی جانچ تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
الیکشن کمیشن نے میانمار کے انتخابی نظام میں ممکنہ تبدیلیوں کے حوالے سے صلاح و مشورے کے لیے جمعے کے روز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی، لیکن آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کا کوئی نمائندہ اس میں شامل نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے چیئرمین تھیئن سوئے نے ایک مقامی میڈیا کے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کردہ ویڈیو میں کہا، ”ہمیں این ایل ڈی پارٹی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے جس نے غیر قانونی کام کیا ہے۔ کیا ہمیں اس پارٹی کو تحلیل کردینا چاہیے یا جن لوگوں نے (یہ غیر قانونی کام) کیا ہے انہیں ملک کا غدا ر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہیے۔‘‘
فوجی جنتا کے رہنما من آنگ ہلینگ نے یکم فروری کو فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد آنگ سان سوچی کی پارٹی پر نومبر میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کر کے کامیاب ہونے کے الزامات لگائے تھے۔
این ایل ڈی نے ان انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
فوجی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جمعرات کے روز مقامی میڈیا نے خبر دی کہ فوجی جنتا نے فوجی جرنیلوں کے لیے لازمی سبکدوشی کی عمر کی حد ختم کر دی ہے۔ جس کے بعد اب من آنگ ہلینگ آئندہ جولائی میں 65 برس کے ہو جانے کے باوجود بھی اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا حال ہے، معیشت مفلوج ہو گئی ہے، فوج احتجاج کرنے اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے اور فوجی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بغاوت کے بعد فوج اور میانمار کے متعدد نسلی باغی گروپوں کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو اپنے گھر چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔
آنگ سان سوچی فوجی بغاوت کے بعد سے ہی اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کے متعدد دیگر رہنما بھی گھروں میں نظر بند یا جیلوں میں قید ہیں۔
آنگ سان سوچی پر جرائم کے متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں اور ان کی قانونی ٹیم کو اپنی موکلہ سے براہ راست ملاقات کرنے میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
آنگ سان سوچی پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں گزشتہ برس انتخابی مہم کے دوران کورونا بندشوں کی خلاف ورزی کرنے نیز بغیر اجازت کے واکی ٹاکی رکھنے کے الزامات شامل ہیں۔
فوجی جنتا کے رہنما من آنگ ہلینگ نے یکم فروری کو فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
تاہم ان پر سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں نوآبادیاتی دور کے قانون ‘آفیشل سیکریٹ ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔
قانونی کیس کی سماعت میں کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد امید ہے کہ سوچی پیر کے روز پہلی مرتبہ بذات خود عدالت میں حاضر ہوں گی۔
خیال رہے کہ این ایل نے ڈی نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی، لیکن فوج نواز اپوزیشن نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حقوق انسانی کے لیے سرگرم گروپوں نے اس اقدام پر نکتہ چینی کی تھی۔
ایشیئن نیٹ ورک فار فری الیکشن مانیٹرنگ گروپ کا کہنا تھا، ”سن 2020 کے عام انتخابات کے نتائج بڑی حد تک میانمار کے عوام کی خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘
معزول ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ، جس میں بیشتر افراد این ایل ڈی سے وابستہ ہیں، نے فوجی جنتا کے خلاف ایک خود ساختہ ‘قومی اتحادی حکومت‘ بنارکھی ہے۔ فوجی جنتا نے اس گروپ کو ‘دہشت گرد‘ قرار دیا ہے۔