میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) ایک بھارتی پولیس افسر نے میانمار کے چھ ارکان پارلیمان کی بھارت میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ چھ سیاستدان بھی ان تقریباً 1800افراد میں شامل ہیں، جو فروری کے اواخر سے میانمار سے بھاگ کر بھا رت پہنچے ہیں۔
میانمار میں فوجی زیادتیوں سے بچنے کے لیے صرف عام لوگ اور پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ وہاں کے ممبران پارلیمان بھی ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ میانمار سے بھاگ کر بھار ت آنے والے بیشتر لوگوں نے شمال مشرقی ریاست میزورم میں پناہ لے رکھی ہے۔
میانمار میں برطرف حکومت کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم سی آر پی ایچ کمیٹی کے ایک مشیر نے جمعرات کے روز بتایا کہ میانمار کے کم از کم چھ اراکین پارلیمان نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ لوگ فوجی بغاوت کے بعد فوجی جنتا کے ذریعہ گرفتار کر لیے جانے کے خوف کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
سی آر پی ایچ کے مشیر نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا، ”ان دنوں میانمار میں ممبران پارلیمان کافی خطرے میں ہیں۔ ان کے گھروں کی تلاشیاں لی جارہی ہیں اور فوج ان کی تمام نقل وحرکت پر نگاہ رکھ رہی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ جن ممبران پارلیمان نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے ان کا تعلق میانمار کے چن اور سگینگ صوبے سے ہے۔ یہ آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی(این ایل ڈی) پارٹی کے رکن ہیں۔ جس نے نومبر سن 2020 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن فوج نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایک بھارتی پولیس افسر نے بھی میانمار کے چھ اراکین پارلیمان کی بھارت میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ فروری کے اواخر کے بعد سے اب تک میانمار سے تقریباً اٹھارہ سو افراد سرحد پار کرکے بھارت میں داخل ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر نے شمال مشرقی ریاست میزورم میں پناہ لے رکھی ہے۔
بھارت کے لیے سفارتی مسئلہ میانمار کے اراکین پارلیمان کی بھارت میں موجودگی نئی دہلی کے لیے سفارتی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارت کے میانمار کی فوج کے ساتھ روایتی طور پر قریبی تعلقات رہے ہیں لیکن وہاں حالیہ تشدد کے واقعات کے خلاف بھارت نے عوامی طور پر بیان دیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ میانمار کے اراکین پارلیمان کی بھارت میں موجودگی سے متعلق اس کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے جمعرات کے روز معمول کی آن لائن پریس بریفنگ کے دوران اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا،”ہم تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور میانمار میں جمہوریت کی بحالی کی حمایت کرتے ہیں۔”
میانمار میں سیاسی قیدیوں کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پالیٹیکل پرزنرز کے مطابق فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک پارلیمان کے ڈیڑھ سو سے زائد اراکین اور سابقہ حکومت کے عہدیداروں کے علاوہ ہزاروں افراد قید میں ہیں۔
فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک چھ سو سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
سی آر پی ایچ کمیٹی کے مشیر نے شمال مشرقی بھات میں کسی نامعلوم مقام سے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو ویڈیو کال کے ذریعہ بتایا، ”این ایل ڈی کے اراکین پارلیمان مجبوراً نہ صرف اپنی رہائش گاہوں سے بلکہ اپنے صوبے سے بھی فرار ہو رہے ہیں۔”
میانمار سے فرار ہو کر میزورم آنے والے ابتدائی لوگوں میں صرف ایسے پولیس اہلکار اور ان کے اہل خانہ تھے جنہوں نے فوج کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن فوجی کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد عام شہری بھی وہاں سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لے رہے ہیں۔