میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار میں کشیدگی پر “گہری تشویش” کا اظہار کیا ہے اور “تشدد کو فوراً ختم کرنے” کی اپیل کی۔ عالمی ادارے نے ان تمام اقدامات کو یقینی بنانے پر زور دیا جن سے شہریوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی جانب سے بدھ کے روز یہ بیان ایسے وقت جاری کیا گیا ہے جب راکھین صوبے میں میانمار کی فوجی جنٹا اور ایک بڑے عسکری گروپ کے جنگجووں کے درمیان تشدد کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ سلامتی کونسل نے متنبہ کرتے ہوئے کہا،”حالیہ پیش رفت نے بالخصوص روہنگیا مہاجرین اور درونِ ملک بے گھر ہونے والے افراد کی رضاکارانہ، محفوظ، باعزت اور پائیدار واپسی کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کردیے ہیں۔”
اطلاعات کے مطابق فوجی جنٹا چن صوبے میں بڑے پیمانے پر بھاری ہتھیار اور فوج تعینات کر رہی ہے، جس کی وجہ سے وہاں سے ان ملیشیا گروپوں کو نکالنے کے لیے فوجی حملے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جو یکم فروری کو فوج کے ذریعہ آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو معزول کرنے کے خلاف وجود میں آئی ہے۔
سلامتی کونسل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، “سلامتی کونسل کے اراکین میانمار میں تشدد کے حالیہ واقعات میں اضافے پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ تشدد کو فوراً ختم کرنے اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی اپیل کرتے ہیں۔” برطانیہ کی جانب سے تیار کردہ بیان کے مسودے میں میانمار کی فوج سے حتی الامکان تحمل سے کام لینے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے، “ہم میانمار کے عوام کی خواہش اور مفادات کے مطابق مذاکرات او رمفاہمت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔” سلامتی کونسل نے تمام ضرورت مند افراد تک انسانی امداد کسی روک ٹوک کے بغیر اور محفوظ طریقے سے پہنچانے نیز انسانی امداد اور طبی خدمات انجام دینے والے رضاکاروں کو مکمل حفاظت اور تحفظ فراہم کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
باغی گروپ کے ایک ترجمان کے مطابق تصادم کی وجہ سے وہ جنگ بندی ختم ہوگئی جو یکم فروری کو فوجی جنٹا کی بغاوت کے بعد مغربی علاقے میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔
فروری میں بغاوت کے چند دنوں بعد ہی فوجی جنٹا نے نسلی راکھین آبادی کے لیے ایک خودمختار راکھین ریاست کے خاطرخونریز جنگ لڑنے والی اراکان آرمی (اے اے) کے ساتھ جنگ بندی کی دوبارہ توثیق کی تھی۔ جنگ بندی کے نتیجے میں فوج کو ان مقامی’سیلف ڈیفنس فورسز” کے خلاف کارروائی کرنے میں سہولت ہوگئی تھی جو بغاوت کے بعد فوج کے خلاف ملک بھر میں قائم ہوگئی ہیں۔
اراکان آرمی کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بدھ کے روز بتایا کہ تصادم کے واقعات اس وقت شروع ہوئے جب میانمار کی فوج علاقے میں داخل ہوگئی۔ تصادم کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد فوری طورپر معلوم نہیں ہوسکی ہے۔
فوجی جنٹا نے چن کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
خیال رہے کہ فروری میں بغاوت کے بعد سے ہی جنوب مشرقی ایشیا کا یہ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ فوج مخالفین اور جمہوریت نوازو ں کے خلاف سخت کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ تصادم کے واقعات میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں افراد جیلوں میں بند کردیے گئے ہیں۔