میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں مظاہروں کے سلسلے کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس کو سارے ملک میں متحرک اور چوکس کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے بعض مقامات پر ہوائی فائرنگ اور آنسو گیئس کا استعمال بھی کیا۔ ایک خاتون کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
یکم فروری سے ہی میانمار میں سیاسی بے چینی پائی جاتی ہے۔ اُس دن فوج نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کو فارغ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج نے حکومت سنبھال کر ملک کی مقبول سیاست دان آنگ سان سوچی سمیت تمام اراکین پارلیمان اور صدر کو بھی حراست میں لے چکی ہے۔
عالمی سطح پر فوج کے اقدام کی بھرپور مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی وجہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں عدم شفافیت بتایا ہے۔
فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے میانمار کو بے یقینی اور عدم سلامتی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ میانمار کی ایک آزاد ویب سائیٹ نے نیشنل لیگ برائے جمہوریت کے اہلکاروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مقبول رہنما آنگ سان سوچی کو اب ان کے گھر سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
فوجی بغاوت کے خلاف اب تقریبا سبھی شہروں کی سڑکوں پر مظاہروں کا سلسلہ ایک معمول بن چکا ہے۔ ہفتہ ستائیس فروری کو بھی کئی سو لوگ سب سے بڑے شہر یانگون اور دوسرے مقامات میں جمہوری حکومت کی حمایت اور فوج کے خلاف احتجاج کے لیے باہر نکلے۔
مظاہروں کے سبھی مقامات پر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے بہت سارے لوگوں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری رکھی۔ ان کے ساتھ ساتھ بعض میڈیا آؤٹ لیٹس کے کارکنان کو بھی گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے تیز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔
انہی مظاہروں میں وسطی شہر مونوویا میں پولیس نے گولیاں بھی چلائیں اور ایک احتجاجی خاتون کی ہلاکت بھی ہوئی۔
ایک شخص نے شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پرامن مظاہرین کے ساتھ پولیس کا رویہ پوری طرح نامناسب تھا۔ یانگون میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کا بھی استعمال کیا۔ ایسے منظر دوسرے بڑے شہر منڈالے اور جنوبی شہر دوائی سمیت کئی اور مقامات پر بھی دیکھے گئے۔
فوجی حکومت کے سربراہ اور فوج کے سب سے سینیئر ترین جنرل مِن آنگ ہلینگ نے واضح کیا ہے کہ قانون نافذ کرنے کے لیے ابھی تک کم سے کم طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔
دوسری جانب فوجی جنرل کے بیان کے جواب میں کہا گیا کہ کم سے کم طاقت کے استعمال کے باوجود اب تک تین مظاہرین کی احتجاجی ریلیوں کو منتشر کرنے کی کارروائیوں میں موت ہو چکی ہے۔ فوج کے مطابق مشتعل مظاہرین نے پرتشدد احتجاج کے دوران ایک پولیس اہلکار کو بھی ہلاک کر دیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میانمار کے مستقل مندوب سویا نو تون نے سوچی حکومت کی جانب سے کہا ہے کہ ملکی فوج کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے تا کہ عام لوگوں کو سلامتی اور تحفظ ممکن ہو سکے۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ عالمی برادری کے سخت اقدامات سے ہی فوجی حکومت کا خاتمہ اور جمہوری حکومت کی بحالی ہو سکے گی۔
سویا نو تون نے جذباتی انداز میں اجلاس میں جمہوری طور پر منتخب سیاستدانوں کی جانب سے فراہم کردہ بیان پڑھا اور واضح کیا کہ ان کا مقصد ایک دن سارے ملک پر حاوی ہو کر ہے گا۔ دوسری جانب مغربی اقوام نے میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف پابندیاں نافذ کرنا شروع کر دی ہیں۔