میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی فوجی حکومت کی سخت کارروائیوں سے بچنے کے لیے بہت سے لوگ بھارت کی پڑوسی ریاست منی پور میں پناہ کے لیے پہنچے ہیں۔
بھارت کی شمالی مشرقی ریاست منی پور کی حکومت نے اپنے سرحدی اضلاع کے حکام کو یہ ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے، ” کسی بھی طرح کے کیمپوں کا اہتمام نا کیا جائے اور نہ ہی انہیں کھانے کی اشیاء اور رہائش کے لیے دیگر سہولیات مہیا کی جائیں۔”
بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور کی سرحد بھی میانمار سے ملتی ہے جہاں گزشتہ کئی روز کے دوران میانمار سے جان بچا کر بہت سے لوگ پناہ کے لیے پہنچے ہیں۔ تاہم حکومت نے حکام سے ان پناہ گزینوں کی کی مدد کرنے کے بجائے دراندازی پر قابو پانے کا حکم دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ریاست منی پور پہنچنے والوں میں میانمار کی پارلیمان کے بعض رکن بھی ہیں جو فوج کے خوف سے فرار ہو کر آئے ہیں۔
ریاستی حکومت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ اگر کوئی پناہ گزیں بہت زيادہ زخمی ہو تو اس صورت میں، “انسانی بنیادوں پر اسے صرف طبی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔” تاہم حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی بھی شخص سرحد عبور نہ کر سکے۔
چند روز قبل بھارت کی مرکزی حکومت نے بھی میانمار سے متصل میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ منی پور اور اروناچل پردیش جیسی شمال مشرقی ریاستوں کو میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کو بھارت میں داخل نہ ہونے کے لیے کوششیں کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
اس سلسلے میں نئی دہلی میں وزارت داخلہ نے 12 مارچ کو ایک خط تحریر کیا تھا۔ اس میں لکھا تھا، “جیسا کہ معلوم ہے کہ میانمار کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بڑے پمیانے پر وہاں کے لوگوں کے بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں میانمار اور بھارت کی سرحدوں پر تعینات تمام محافظوں کو الرٹ پر رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی شخص غیر قانونی طور پر بھارت میں نہ داخل ہو سکے۔”
بھارت کے موقف کے برعکس اقوام متحدہ میں میانمار کے نمائندے نے حال ہی میں موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے میانمار سے بھارت پہنچنے والے افراد کو پناہ دینے اور انہیں سائبان مہیا کرنے کی اپیل کی تھی۔
یو این کے نمائندے کا کہنا تھا،’’دونوں ملکوں میں ایک طویل تاریخی رشتہ رہا ہے اور اسے کبھی بھولنا نہیں چاہیے۔” ان کے بیان کے مطابق میانمار کے باشندوں کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر میانمار میں بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے منگل کے روز مجموعی طور پر 510 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
شہری ہلاکتوں کی مانیٹرنگ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز’ (اے اے پی پی) نے بتایا کہ صرف پیر کے روز میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں کم از کم آٹھ مزید شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ملک بھر میں مجموعی طور پر چودہ افراد ہلاک ہوئے۔
اس دوران میانمار میں جمہوریت نواز کارکنوں نے ینگون میں فوجی بغاوت کے خلاف ‘کوڑا ہڑتال’ کے ذریعے احتجاج کا ایک نیا طریقہ کار شروع کیا ہے۔
اس کے تحت کارکنان نے منگل کے روز بطور احتجاج ینگون کی سڑکوں اور گلیوں میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر جمع کر دیے ہیں۔ عام شہریوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ بطور احتجاج اپنا کوڑا سڑکوں پر ہی پھیکنا شروع کریں۔
ادھر مسلح باغی گروپوں نے بھی فوج سے خونریزی فوراً بند نہ کرنے پر جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ تین مسلحہ باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ اگر فوجی جنتا نے فوری طور پر، “خون خرابہ بند نہیں کیا تو پھر وہ مظاہرین کے ساتھ اپنا تعاون شروع کر دیں گے اور فوج کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے گی۔”
ملک کی منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو یکم فروری کو اقتدار سے برطرف کر دینے کے بعد سے ہی ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی برادری مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی سخت مذمت کر رہی ہے اور فوجی جنتا پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکا نے پیر کے روز میانمار سے تجارتی معاہدے معطل کر دیے اور جمہوری حکومت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین نے میانمار کے فوجی جرنیلوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی فوجی کارروائی کی مسلسل مذمت کر رہی ہیں۔